Pages

Monday 25 May 2020

ایک لانجا جو بنا سب کا سانجھا؛ میرا ایک سفری بلاگ

ایک لانجا جو بنا سب کا سانجھا؛ میرا ایک سفری بلاگ
سیلانی کو محلے سے ہی خدمت خلق کا ایسا چسکا پڑا جو آگے چل کر ننھیال کا لانجا جو بنا سب کا سانجھا کی عملی تصویر بن کر رہ گیا۔ ساتویں آٹھویں تک پہنچا تو کھیل کود جس میں گلی ڈنڈہ ہو یا ہتھ چھڑائی، فٹبال، ہاکی، اتھلیٹکس اور پھر کرکٹ کی طرف راغب ہو گیا، جس کی وجہ سے قد و قامت میں بھائیوں سے بھی بہتر نکل آیا، ابا اکثر کہتے تھے “گاؤں میں ہوتا تو تجھے پہلوانی سکھاتا، روکھی سوکھی کھا کر بھی اچھا جسم بنایا ہے، دودھ گھی کھاتے تو اور پہلوان بنتے”۔ میں ہنس کے کہتا “میں دیسی پہلوانی سے باز آیا، اگر ٹِڈ نکالنے کا نام پہلوانی ہے تو مجھے اس کی ضرورت نہیں”۔ محلے بھر میں کسی کو ہسپتال جانا ہوتا تو میں پہلے حاضر ہوتا، چاہے دن رات وہیں رہنا پڑ جائے، دسویں کلاس میں ہمارے سکول میں ہلال احمر والوں کا ایک گروپ آیا، بلڈ ڈونیشن کے لیے ان کے ساتھ سکول کے بعد محلے والوں کے گھر گھر لے کر گیا، خود بھی خون دیا اور کئی اوروں سے بھی دلوایا۔ یہ سلسلہ کالج میں اور زیادہ پروان چڑھا۔ ابا جی نے میری ان عادات کی وجہ سے میرا نام “لانجا” بر وزنِ لانجہ رکھا ہوا تھا، کہ ہر ایمرجنسی میں “سپیئر ٹائر کی طرح حاضر رہتا تھا”۔ ہمارے محلے کا کچھ علاقہ نشیبی تھا جس میں برسات کے موسم میں عموماً سیلاب آ جایا کرتا تھا، میری کرکٹ و فٹبال ٹیمیں مشکل وقت میں سارے ایمرجنسی کے کام کرتیں، کسی کا سامان اٹھا کر اوپر چھت پر لے جانا، پانی کو گھروں کے اندر جانے سے روکنے کے لیے بوریوں میں مٹی و ریت بھر کر گھروں کو پانی سے بچانا جیسے کاموں میں پیش پیش رہتا تھا۔ کسی کی فوتگی ہو جاتی تھی تو ہمارے دو استاد تھے، استاد بیرُو اور حافظ منان، جو بھی حاضر ہوتا ان کے ساتھ فی سبیل اللہ قبریں کھودا کرتا تھا۔ کسی کی شادی ہوتی تو ولیمے کے انتظامات میں میری ٹیمیں اپنی خدمات پیش کرتیں تھیں۔
چونکہ دونوں بڑے بھائیوں کے بعد میں بڑا تھا، وہ اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے، ماموں کراچی چلے گئے تھے، باقی کزن چھوٹے تھے اس لیے ننھیال میں جب کبھی ضرورت پڑتی تو نانی پیغام بھجوا دیتیں، جیسے ہی چھٹیاں ہوتیں، وحید، ضیاء، انصر، ذوالفقار، نعیم وغیرہ میری سربراہی میں ہر کام کرنے کے لیے تیار ہوتے۔ نانی کو اکثر جلانے کے بالن (لکڑیوں) کی فکر رہتی تھی، جنہوں نے کہوٹہ کے گرد ونواح کا علاقہ دیکھا ہو تو وہ جانتے ہوں گے کہ یہاں پھلاہی کے درختوں کے جھنڈ یا جنگلات پاتے جاتے ہیں جنہیں دیسی زبان میں “رَکھ” کہا جاتا ہے، نانی کا حکم سنتے ہی سارے کزنز کو “لائن حاضر” کرتا اور میں سیدھا باوا خوشحال کے پاس جاتا، وہ اولادِ نرینہ سے محروم ہو کررہ گئے تھے، ایک جوان بیٹا تھا جو مر چکا تھا، مجھے دیکھتے تو کہتے “دوھتریا(نواسے) آ گیا تُو، آ جا نانے کے گلے لگ جا”، مل کر بہت خوش ہوتے، میں کہتا “کیسے نانا ہو اتنا بڑا جنگل قبر میں لے کے جاؤ گے؟ نانی کے پاس بالن مُک گیا ہے، ہمارا حصہ نکالو”۔ وہ ہنس پڑتے اور کلہاڑی لے کر اس کے پھل سے پھلاہی کے دو درختوں کو پَچھ (کٹ) لگاتے اور کہتے “ان کو کاٹ لو”، میں کہتا “نانا یہ دو تو آپ نے دئیے، ایک میرے حصے کا بھی نکالو” اور وہ ہنستے ہوئے ایک اور درخت کاٹنے کے لیے دے دیتے۔ چھوٹی بڑی رکھوں میں سینکڑوں کی تعداد میں درخت ہوتے ہیں اور جہاں ہر سال کم و بیش 30 پینتیس خودرو  نئیجھاڑیاں بڑی ہو کر نئے درختوں کا روپ دھار لیتی ہیں۔ قدرت سے بڑھ کر کوئی “دیونہار” نہیں ہے کہ جو سب کچھ مفت دیتی ہے، یہ ہم انسان ہی ہیں جو اس کے مول لے کر برکت کو ختم کر دیتے ہیں۔ بہرحال ہم کزنز درختوں کو بڑے بڑے ٹکڑوں میں کاٹ لیتے کہ جو آسانی سے اٹھائے جا سکیں اور چھانگ سمیت سب گھر پہنچانے کی تیاری کر لیتے (چھانگ شاخوں کو کہتے ہیں ساتھ اس لیے لے جاتے ہیں کہ بکریاں چھانگ کی نرم نرم شاخیں اور پتے بڑے شوق سے کھاتی ہیں)۔ یوں کئی پھیرے لگا کر سارے کزنز مل کر بالن دو چار فرلانگ دور گاؤں میں پہنچاتے کیونکہ یہ رکھ زیادہ تر گاؤں سے دو چار فرلانگ یا 1 کلومیٹر کے فاصلہ پر ہوتی ہیں، جہاں اتنا سبزہ ہوتا ہے کہ سارے گاؤں کے ڈھور ڈنگر وہیں چرائے جاتے ہیں، سبزے کو برقرار رکھنے کے لیے ہمارے علاقے میں بھیڑ نہیں پالتے بلکہ بکریاں، گائیں اور بھینسیں ہی پالی جاتی ہیں۔ بھیڑ چرنے میں بہت لالچی جانور ہے اس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ گھاس کی جڑ تک نکال کر کھا جاتی ہے جس کی وجہ سے رکھوں میں سبزے کی کمی ہو جاتی ہے۔ گاؤں کی چاروں اطراف میں کئی رکھ جات واقع ہیں اس لیے گاؤں والے کچھ عرصہ ایک طرف ڈھور ڈنگر چراتے ہیں اور پھر اسے پھولنے پھلنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں اور دوسری جگہ چرائی کرتے ہیں۔ کہنے کو گاؤں والے شہریوں کی نسبت کم پڑھے لکھے ضرور ہوں گے لیکں ان کا “لوکل نالج” ہم سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔ مجھے یہ دیسی معلومات میرے ننھیال کے انہی تجربے کار بابوں سے ملی ہیں۔ ایسا نہیں کہ میں بالن کی لالچ میں سب کا لاڈلہ بنا ہوا تھا، بلکہ سچ میں گاؤں میں جو سانجھ ہے اس کو کوئی مجھ سے زیادہ نہیں جانتا، الحمدللہ چھوٹی سی عمر سے سارے کاموں میں ہاتھ بٹانے کی جو روایت گاؤں میں ہے وہ شہروں میں اب ملنا مشکل تر ہے۔ ہم نے ضرورت کے سارے کام کیے، جیسے گاؤں کے رستوں جنہیں “آڑ” کہا جاتا ہے، ان کی صفائی، درختوں کو چھانگنا، کنووں کی صفائی کرنا، رستوں کے اطراف کے جھاڑ جھنکار صاف کرنا، گاؤں کے سکول کی چھت اور مسجد کی مرمت ہماری “گدر گوال”( بچہ) پارٹی ہی کرتی تھی۔ گاؤں والوں کا ساز و سامان ادھر ادھر کرنا ہوتا یا کسی کا گھر بنانا ہوتا تو “لیتری” یعنی سانجھا کام بھی ہماری ذمے ہی ہوتا تھا۔ اللہ بخشے ہمارے گاؤں کی عمر رسیدہ بے فضل ہوا کرتی تھیں، ان کے بچے دوسرے شہروں میں رہتے تھے اور عید پر ہی چکر لگاتے تھے۔ بے ہوراں کو شہر اچھا نہیں لگتا تھا، اس لیے وہ گاؤں میں ہی رہنا پسند کرتی تھیں۔ جب بھی کسی کام کے لیے ہماری ضرورت پڑتی تو میں گاؤں کے سارے ہم عمر ہمجولیوں کو لے کر کبھی ان کے گھر کی چھت کی مرمت کر رہا ہوتا، کبھی گاؤں کی کُڑیوں کو بلوا کر ان سے بے جی کے صحن کا لیپ کروا رہا ہوتا، سب سے بڑھ کر بے جی کے لیے سال بھر کے لیے بالن اکٹھا کر کے دیتا تھا۔ جس سال گرمیوں میں وہ فوت ہوئیں میں کئی بار ان کے گھر میں رات گزارنے جایا کرتا تھا تاکہ رات کو جب وہ اکیلی ہوتی ہیں تب ان کا خیال رکھ سکوں، پھر ایک دن رات کو سوتے میں بے فضل اپنے خالق کے پاس چلی گئیں، ان کا گھر خالی ہو گیا لیکن میں دن یا شام کو ایک آدھ چکر ضرور لگایا کرتا تھا۔ میری ننھیال اور ددھیال میں زیادہ فاصلہ نہیں تھا، ہماری خالہ عزیزہ بھی ہمارے ددھیالی گاؤں میں بیاہی ہوئی تھیں، دونوں خالہ زاد چھوٹے تھے، خالو کریم جو ہمارے رشتے میں چچا بھی لگتے تھے لیکن وہ ہمیں کہتے تھے کہ “سب مجھے ماموں کہہ کر بلایا کرو”، وہ اکثر کام کاج کے سلسلے میں کراچی رہتے تھے، جب ماموں کریم راولپنڈی میں کام کرتے تھے تو ہمارے ہاں ویسٹرج 3 میں ہی رہا کرتے تھے، خالہ عزیزہ بھی کافی عرصہ ہمارے ہاں راولپنڈی کینٹ رہیں، خالہ زاد انصر اور سبینہ کی پیدائش ہمارے گھر کی ہے۔ جب انہوں نے ہمارے ددھیالی گاؤں میں گھر بنایا اور ماموں کریم کراچی چلے گئے تو پیچھے ان کے گھر کا بالن وغیرہ بھی ہم کزنز کی ذمہ داری بنا۔ سکولوں کی چھٹیاں ہوتیں تو اللہ جنت نصیب کرے والدہ مجھے خشک راشن دے کر ان کی طرف بھیجتیں، میں راشن پہنچا کر دُڑکی لگا کر خالہ زبیدہ کی طرف جاتا، وہاں سے ضیا اور نعیم کو لیتا، اور پھر ننھیال پہنچ کر وحید کو ہمراہ لے کر خالہ عزیزہ کے ہاں جو کام ہوتا وہ کرتے، عموماً ہم یہ کام دو میلوں کے آس پاس کرتے تھے اس طرح ہم کام بھی نبٹا لیتے اور میلے بھی دیکھ لیتے تھے۔ یوں جب دیکھیں تو میں محلے، ننھیال اور خالاؤں کے طرف کسی نہ کسی کا لانجہ لاہ رہا ہوتا تھا، اسی وجہ سے میرے بارے میں مشہور کر دیا گیا تھا کہ “یہ لانجا سب کا سانجھا ہے”۔



No comments:

Post a Comment