Pages

Tuesday 8 September 2020

ننھیال جنجور راجگان میں سیہہ کے شکار کا ایک دلچسپ واقعہ

ننھیال جنجور راجگان میں سیہہ کے شکار کا دلچسپ واقعہ
آج ایک ٭سیہہ٭ کا فوٹو نظر سے گزرا تو مجھے اپنے لڑکپن میں سیہہ کے کھیلے گئے شکاروں کی یاد تازہ ہو گئی، سوچا آپ سے بھی اس یاداشت کو بانٹا جائے۔ کالج دور کی بات ہے کہ ایک بار گرمیوں کی چھٹیوں میں ننھیالی گاؤں جنجور راجگان جانا ہوا تو دیکھا کہ ماموں سخاوت ایک نئے کتے کی بڑی خدمت میں لگے ہوئے تھے، میں نے کہا "ماموں کتا ڈھیلا دکھائی دیتا ہے اور آپ اس کی ایسے خدمت کر رہے ہیں جیسے یہ کسی شیر کا شکار کرنے جا رہا ہو"۔ ماموں نے کہا "اچھا ہوا تم آ گئے، میں تمہیں بلوانے ہی والا تھا، اب تم اس ڈھلو کے کام دیکھنا"۔ دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ چونکہ آج کل گرمیوں کا موسم جا رہا ہے، مکئی کی فصل کو کچا کچا بھٹہ/تازہ تازہ چھلی لگی ہے، ایسے موسم میں سیہہ بھٹہ/چھلی کھانے کے لیے مکئی کے ٹانڈے کو نیچے سے کاٹ کر اسے لٹا کر چھلی ہڑپ کر کے مکئی کی فصل کی تباہی مچا دیتی ہے، گاؤں میں رہنے والوں کے لیے مکئی بڑی اہم فصل ہوتی ہے، مکئی کے آٹے کی روٹیاں، بھنے ہوئے دانے شوق سے کھائے جاتے ہیں اور جانوروں کو سردیوں میں خوراک میں شامل کر کے دیتے ہیں۔ فصل بچانے کے چو جنگے (چار پایہ شکاری کتے) کا بندوبست ہو گیا تھا اب دو جنگے (دو ٹانگوں والے) شکاریوں کی ضرورت تھی جو بھاگتی سیہہ کا پیچھا کر کے اس کا ٹھوڑ ٹھکانہ ڈھونڈنے میں مدد دے سکے، میری دوڑ کافی تھی، دن ہو کہ رات میں میلوں بھاگ سکتا تھا، ماموں سخاوت کی جانب سے بلاوہ بھی اسی مقصد کے لیے تھا کہ جب سیہہ بھاگ جائے تو دو تیز ترین بندے ٹارچ لے کر اس کا پیچھا کریں اور اس کی گف (زمین کے اندر بنائی گئی رہائش جو عموماً دو موئیں کھُڈ (دو سوراخ والی ہوتی ہے) میں رہتی ہے۔ ماموں نے سمجھا دیا کہ اس کا کیسے بچ بچا کر پیچھا کرنا ہے اور کیسے دونوں سوراخوں کو بند کرنا ہے۔ چونکہ یہ دو بندوں کا کام تھا اس لیے ماموں زاد وحید اس کام میں میرا جوڑی دار بنایا گیا۔ اس کا کام دوسرے سوراخ کو تلاش کرنے اور اسے ڈھینگر (کانٹے دار شاخ) سے بند کرنا ہوتا تھا تاکہ سیہہ دوسری طرف سے نکل کر بھاگ نہ جائے۔
سیہہ جس سوراخ سے اندر گھستی ہے، اس سے بہت  کم باہر نکلتی ہے، لیکن مجھے احتیاطً سے ایک آدھ ڈھینگر پاس رکھنے کا کہہ دیا گیا کیونکہ سیہہ کانٹے مارنے میں بڑی بدنام ہے اور جس کسی کو کانٹے لگ جائیں اس کی گرمیاں سمجھیں اوئی اوئی کرتے ہی گزریں گی۔ رات کا کھانا کھا کر سبھی بیٹھے پروگرام کو فائنل کرنے لگے۔ سینئر شکاری نانا محمد حسین ہدایات نامہ اور ڈیوٹیاں تقسیم کرنے میں لگ گئے۔ چونکہ ہمارا سارا علاقہ کانٹے دار جھاڑیوں سے بھرا ہوا ہے اس لیے اس کام کے لیے سبھی نے فوجی خالی پتلونوں کا بندوبست کیا ہوا تھا، میں نے ایسے ہی کسی کام کے لیے ایک عدد جین کی پینٹ گاؤں میں ہی رکھی ہوئی تھی جو آج کام آ گئی وگرنہ میں ایمرجنسی میں خاکی فوجی پینٹ کہاں سے لاتا۔ رات کو دودھ کے گلاس پی کر بڑوں سے اجازت لے کر ہم بُنے جنجور کی طرف چل پڑے جہاں میرا نما میدانی زمین تھی جہاں گاؤں کی سب سے اچھی فصل ہوا کرتی ہے۔ سیہہ کے شکار کی پارٹی ساڑھے دس بجے کَسی کو کراس کر کے خالہ نظیر کے گھر سے کافی ہٹ کر گزری تاکہ رکھوالی کے کتوں کو کَیڑ(ہوشیار) نہ ہو اور وہ نہ بھونکیں، کتے بھونکتے تو سیہہ بھاگ جاتی۔ خالہ کا گھر سمجھیں آبادی کے آخر میں تھا پھر ایک طویل قابلِ کاشت میدانی علاقہ اور اس کے آس پاس پہاڑیاں اور کسیاں (قدرتی و برساتی نالے) تھے۔ جائے وقوعہ پر پہنچ کر سب کو آڑ کی گھاس پر اپنے اپنے ڈنڈے گھاس پر مار کر بیٹھ جانے کا کہہ دیا گیا (گھاس میں ڈنڈا اس لیے پھیرنا پڑا تاکہ کوئی سانپ ہو تو بھاگ جائے)۔ ماموں سخاوت کئی دن سے 'ریکی' کر رہے تھے، انہیں علم تھا کہ چھلیوں کی شوقین مکئی کی دشمن سیہہ کہاں کہاں سے آتی ہے، کہاں کہاں سے واپس جاتی ہے۔ پونے گھنٹہ بیٹھ کر نیند آنے لگی تھی کہ کرچ کرچ کی چند آوازیں آئیں، ماموں نے کہا "پتر تیار ہو جا سیہہ اپنے کام میں لگی ہے، اسے کھانے دے تاکہ رج جائے تو زیادہ بھاگ نہ سکے، ٹارچ پکڑ اور گڈی گیئر میں رکھنا۔ جیسے کہوں اس کے پیچھے بھاگنا"۔ پارٹی میں چند ٹین بجانے والے بھی تھے جنہوں نے اس کھیت کو تین اطراف سے گھیر لیا، جیسے ہی ماموں نے اشارہ کیا، ٹین بجے تو سیہہ آوازوں کی مخالف سمت میں بھاگی، ہلکی ہلکی چاندنی تھی اس لیے اس کا پیچھا کرنے میں مشکل پیش نہیں آئی کیونکہ بھاگتے ہوئے اس کے بدن کے کانٹے ہلکا ہلکا میوزک بجا رہے تھے، چار پانچ کھیتوں کے بعد ککڑائی کی کسی میں نیچے اترنا پڑا اور پھر ککڑائی کی پہاڑی کی غیر آباد سمت میں جہاں ہلکی جھاڑیوں اور گھاس زیادہ تھی وہیں کچھی کیری نما مٹی کے ٹیلے تھے جہاں پہنچے تو آواز بند ہو گئی، میں وہیں رک کر دیکھنے لگا، اتنے میں ماموں بھی پہنچ گئے، انہیں بتایا کہ "آواز بند ہو گئی ہے، مجھے ابھی تک کھڈ نظر نہیں آئی"۔ ماموں نے کہا "جہاں جہاں جھاڑی کی جڑ ہے وہ جگہ تلاش کرو، وہیں پاس ہی گف ملے گی"۔ دس منٹ بعد گف مل گئی، اسے ڈھینگر سے کور کیا، ایک بندے کو نگرانی کے لیے چھوڑا اور وحید کی مدد کو پہنچ گئے جو نیچے کی جانب ایک جھاڑی سے الجھا ہوا تھا، غالباً اسے بھی دوسرا سرا مل گیا تھا۔ ماموں نے اس پہ ڈھینگر رکھوایا۔ ساری شکار پارٹی کو بھی احتیاط سے ساری جگہ دیکھنے پہ لگا دیا گیا تا کہ کہیں اور سوراخ نہ ہو اور سیہہ وہاں سے نکل نہ بھاگے۔ جب سارا چیک اپ ہو گیا تو اوپر والے بڑے سوراخ کے پاس جا کر ڈھلو کتے کی رسی کھولی گئی، سوراخ دیکھ کر ڈھیلا ڈھالا کتا ایک دم مستعد ہو گیا جو اس بات کی نشانی تھی کہ اس نے شکار کی بُو پا لی ہے اور فوجیوں کی طرح کرال کرتا ہوا گف نما سوراخ کے اندر گھس گیا۔ ڈھلو میاں تو اندر معرکہ مارنے چلے گئے جبکہ ہم سب تجسس کے مارے انتظار کر رہے تھے کہ دیکھیں ڈھلو ورلڈ کپ جیتتا ہے یا ٹیم ایک بار  پھر سے فائنل ہار جائے گی۔ مجھے تو اندازہ نہیں ہوا لیکن ماموں سخاوت نے کوئی آواز سنی تو نعرہ لگایا "مر گیا"، یہ ماموں کا کوڈ ورڈ ہے جس کا مطلب یہ تھا کہ شکار پھڑیا گیا ہے۔ ماموں نے نزدیک والوں کو ایک ایک اچھا سا ڈھینگر پکڑوایا تاکہ اگر سیہہ جارحانہ کاروائی کرے تو کچھ نہ کچھ بچاؤ کیا جا سکے۔ اللہ اللہ کر کے آدھے گھنٹے بعد ڈھلو اسی طرح کرال کرتا ہوا باہر نکلا، اس کے جبڑے کا شکنجہ سیہہ کے حلق پر کسا ہوا تھا جو غالباً دم توڑ چکی تھی۔ ڈھلو نے ورلڈ کپ جیت لیا تھا، لیکن مجال کہ وہ اس پورے معرکے میں ایک بار بھی غرایا ہو، اس نے خاموشی سے میدان مار لیا تھا۔ ماموں نے دیکھا کہ سیہہ کا حلق کٹا ہوا تھا، بس کھال باقی رہ گئی تھی۔ ماموں نے اعلان کیا کہ "ٹین کھڑکاؤ تاکہ گاؤں والوں کو پتہ چلے کہ ہم فضول میں وقت ضائع نہیں کر رہے، گاؤں والوں کو بتاؤ کہ سیہہ کپ ہمارا ہو گیا ہے"۔ میں نے سیہہ کے فوٹو تو ویسے بہت دیکھے تھے، زندہ سیہہ بھی دیکھ چکا تھا، لیکن اتنے قریب سے اسے پہلے بار دیکھا، بغور معائنہ کرنے کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ سیہہ کے پیر بالکل چھوٹے انسانی بچے کے پیر سے ملتے جلتے ہوتے ہیں بس انگلیوں کا فرق ہوتا ہے، اگلے ہاتھ کہیں یا پیروں کی چار انگلیاں ہوتی ہیں اور پچھلے پیروں کی پانچ پانچ انگلیاں ہوتی ہیں۔ اللہ جنت نصیب کرے نانا خوشحال کو جو کہ اس وقت حیات تھے کو سیہہ کی ضرورت تھی، جیسے ہی انہیں اطلاع ملی مردہ سیہہ انہوں نے اپنے لیے منگوا لی۔ رات کے پچھلے پہر ہم واپس ہوئے اور جس کسی کو جہاں جہاں جگہ ملی وہیں پڑ کر سو گیا۔ صبح سو کر اٹھے، کنبی پہ جا کر غسل کیا تو پتہ جلا کر جین کی وجہ سے ٹانگیں تو محفوظ رہیں لیکن جھاڑیوں نے بازوؤں، ہاتھوں، اوپری جسم پہ ان گنت خراشیں ڈالی ہوئی ہیں۔ خراشوں کو بھول بھال کر ممانی کے ہاتھ کا تگڑا ناشتہ کیا اور ماموں سے اگلا پروگرام پوچھا، ماموں بولے "یہ ڈھلو چار دن کے لیے مانگ کے لایا ہوں اس لیے چار دن یہی کام جاری رہے گا"۔ قصہ مختصر یہ کہ مزید چار دن یہی ورلڈ کپ جاری رہا لیکن مزید کوئی سیہہ ہمارے ہاتھ نہیں آئی۔ خراشیں ذرا ٹھیک ہوئیں تو میں بھی اجازت مانگ کر گھر واپس چل پڑا۔ واپسی پر ویگن میں ساتھ کی سیٹ پر بیٹھے بابا جی نے پوچھا "پتر جی خیر تو ہے ناں؟ کیا کوئی جھگڑا ہوا تھا؟" میں نے کہا "ایسا ویسا جھگڑا، ایک سیہہ ہمارے نانکے گاؤں کی چھلیاں کھانے آتی تھی، دو درجن جَنوں کی پوری گوریلا فوج اور ایک خاموش ڈھلو کتے کے ساتھ مل کر اسے مارا گیا ہے، یہ خراشیں چنگڑیوں(جھاڑیوں) کے کانٹوں سے پیار کا نتیجہ ہے"۔ بابا جی بولے "پتر شکل سے پڑھیا لکھیا لگتا ہے اور شوق دیسی جنگلیوں والے پالے ہوئے ہیں"۔ اب بابا جی کو کیا پتہ کہ اپنی پیکنگ شہری ہے لیکن پیکٹ میں مال پک پکا دیسی ہے۔

2 comments:

  1. بہت اچھی منظر کشی کی ہے آپ نے اور خاص طور پر گاؤں کی اصطلاحات کا استعمال کر کے اردو زبان میں ان اصطلاحات کو محفوظ کر دیا ہے اللہ آپ کو اس ہی طرح سے اور کام کرنے کی توفیق دے اور ہاں اپنے اندر کے پینڈو کو زندہ رکھئیے گا - یہ بہت پڑی نعمت ہے

    ReplyDelete
    Replies
    1. بہت شکریہ صدیقی صاحب، یقین کریں کہ پنڈی کینٹ کا جم پل اور آج پردیس کا رہائشی ہونے کے باوجود آج بھی اصلی پینڈو ہی ہوں،آج بھی جب گاؤں جانا ہو تو سیہہ کا شکار تو ممکن نہیں لیکن دیسی خرگوش جسے دیسی بولی میں سایا کہتے ہیں اس کا شکار ضرور کیا جاتا ہے۔

      Delete