Pages

Wednesday 24 June 2020

کلر سکوٹ ممیام مٹور مواڑا جنجور کا سفری بلاگ

کلر، سکوٹ، ممیام، مٹور، مواڑا، جنجور کا سفری بلاگ
چند سال پہلے والد صاحب کی طبیعت کی خرابی کے باعث مجھے پاکستان جانا پڑا، ابا جی تو الحمدللہ جلد ٹھیک ہو گئے مگر اس دوران میری ساس کا انتقال ہو گیا، گرمیوں کے دن تھے اور اہلیہ کو ایسا ٹکٹ نہیں مل رہا تھا کہ جس سے وہ بروقت پہنچ کر والدہ کا آخری دیدار کر سکے، جو فلائٹ مل رہی تھی اس کے حساب سے وہ دوسرے دن سہہ پہر کو پاکستان پہنچ سکتی تھی اور ادھر میری سسرال والے شور شرابا کر رہے تھے کہ ”ہم زیادہ دیر انتظار نہیں کر سکتے کیونکہ سخت گرمی کا موسم ہے ایسے میں میت رکھنا مناسب نہیں لگتا“۔ اہلیہ نے کہا ”پرسوں پہنچوں گی تو تب بھی مٹی کی ڈھیری ہے اور سال بعد بھی، آپ اللہ کا نام لے کر تجہیز و تکفین کا مرحلہ نبٹا دیں، آپ واپس آئیں گے تو دوبارہ اکٹھے چلے چلیں گے“۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور میں دو ہفتوں بعد واپس چلا گیا۔ دو ماہ بعد اہلیہ کا تھائیرائیڈ ریڈیو ایکٹو ٹریٹمنٹ کا لیٹر آ گیا، جو ڈیڑھ ماہ بعد کا تھا، جس کے مطابق اس ٹریٹمنٹ کے بعد اسے کم از کم ایک سال سفر کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ سوچا اب گرمی نہیں ہو گی اور بعد میں جانا ممکن نہیں ہو گا اس لیے اکتوبر کے آخر میں تین ہفتوں کی چھٹیاں لیں اور پاکستان آ گئے۔ دوسرے دن سسرال پہنچے، اہلیہ کو والدہ کی قبر پر لے گئے، بھائی بہنوں سے ملنے کے بعد تھائیرائیڈ کا تذکرہ چھڑا تو پتا چلا اس گھر میں ہر دوسرا فرد اس مرض کا شکار ہے، میری ایک خواہر نسبتی کو بھی یہی مرض لاحق تھا، اور وہ کلر سیداں سے آگے سکوٹ میں کسی سے دم کروا رہی تھی جس سے اس کا تھائیرائیڈ کنٹرول میں آ گیا تھا، ہم نے سوچا چلو کلرسیداں آئے ہوئے ہیں، کیوں نہ سکوٹ چلے چلیں اور شاہ جی سے دم کروتے چلیں۔ میں، میری اہلیہ، بیٹی، بھتیجا طاہر اور خواہر نسبتی صاحبہ کار میں بیٹھ گئے، ان کے سسر موٹر بائیک پر ہمیں گائیڈ کرتے ہوئے آگے آگے چل رہے تھے۔

Tuesday 23 June 2020

مواڑا کے شرمیلے ظہیر کی شادی پر مبنی سفری بلاگ

مواڑا کے شرمیلے ظہیر کی شادی پر مبنی سفری بلاگ
اسی طرح ایک بار پاکستان چھٹی گیا ہوا تھا، ساتھ میں کچھ دوست بھی گئے تھے، سو مجھے اپنے گھر اسلام آباد ڈیرہ لگانا پڑا، شعیب ان دنوں فارغ تھا وہ میرے ساتھ ہی رہ رہا تھا، ککنگ جانتا تھا اس لیے میرے لیے کافی سہولت تھی۔ مہمان جہلم کے تھے، اسلام آباد میں اپنے کام بھگتا کر واپس چلے ہیں۔ میری زندگی میں ٹھہراؤ آ جائے تو ٹینشن ہونے لگتی ہے، دو دن سکون سے گزرے لیکن میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ اس بار کدھر کا رخ کروں؟ کہ مواڑا کہوٹہ سے خالہ زاد نعیم کا فون آ گیا ”مسیر جی اگلے ہفتے تیاری کر لیں، ظہیر (ان کے چچا زاد) کی شادی ہے، بارات بٹلی نزد نارہ تحصیل کہوٹہ مین روڈ کے ساتھ تھوڑے فاصلے پر اندر کر کے کسی گاؤں میں جائے گی“، اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ نعیم نے فون پر تاکیداً بتایا کہ ”تایا باغ علی نے آپ کو خاص طور پر مدعو کیا ہے“، میں نے کہا ”فکر ای نہ کر، میں ایک یا دو دن پہلے پہنچ جاؤں گا“۔ شعیب ناشتہ بنا رہا تھا، میں نے اسے شادی کے سدے (دعوت) کا بتایا، تاریخ بتائی تو کہنے لگا، ”ان دنوں بارشیں ہو رہی ہیں اور کشمیر کے پھیرے بھی نہیں ہیں، اکٹھے ہی چلے چلیں گے، گھر والے شادی والے دن آ جائیں گے“۔ میں نے کہا ”ٹھیک ہے، گاڑی لے جائیں گے، گرمی بھی ہے اور شادی کے لیے بھی کار بہتر رہے گی، دلہا کے کام آ جائے گی“۔ ہم نے یہ پروگرام بنایا کہ شادی سے دو دن پہلے رات کو پہنچیں گے، مہندی مائیوں کی دو راتوں کے شغل میلے اور بارات بھگتا کر واپس آ جائیں گے۔ برسات کے دن تھے، برسات کی شادی بھی ایک طرح کا کرکٹ ٹیسٹ میچ ہوتا ہے، کبھی بارش کبھی دھوپ اور کبھی آندھی طوفان، میں نے ان گاؤں والوں کو کبھی سردیوں میں شادیاں رچاتے نہیں دیکھا، سردیوں کی اہم ترین گندم کی فصل جو غریب گھرانوں کی سارا سال کی ضروریات پورا کرتی ہے۔

ہولاڑ سے اسلام آباد براستہ مٹور، کلر، روات ایک سفری بلاگ

ہولاڑ سے اسلام آباد براستہ مٹور، کلر، روات ایک سفری بلاگ
میں نے اپنے تقریباً تمام ہی کشمیری رشتہ داروں میں ایک خاصیت دیکھی ہے کہ وہ بہت پریکٹیکل عملی زندگی گزارتے ہیں، رات کو دیر سے سونے کے باوجود سارے صبح صبح اٹھ کھڑے ہوئے۔ فاروق بھائی کے برآمدے سے سامنے کہوٹہ کوٹلی روڈ صاف نظر آ رہا تھا، جس پر ٹریفک چلتی دکھائی دیتی تھی۔ میں نے ناشتے کا پوچھا کیونکہ ارادہ تھا کہ جلد از جلد نکلنا ہو گا، بھائی تصدق کو دیکھا جو ایک بکرے کی کھال اتار رہے تھے، انہوں نے کہا ”ناشتہ کر لو اور جاتے ہوئے اپنا گوشت لیتے جانا“۔ مجھے کہنا یاد نہیں رہا تھا مگر بھائی تصدق نہیں بھولے تھے کہ میں یا شعیب جب بھی آتے اور ساتھ اپنی گاڑی ہوتی تو ہم ایک آدھ دیسی بکرا ذبح کروا کر گھر کے لیے لے جاتے ہیں، کیونکہ ابا جی گائے بھینس کا گوشت نہیں کھاتے ہیں۔ اس لیے جب کبھی ہولاڑ آنا ہو یا ننھیال کا چکر لگے تو ہم دیسی بکرا لے کہ یہیں ذبح کروا کر بڑے بڑے ٹکڑوں میں کاٹ کر باندھ کر ساتھ میں برف ڈال کر ساتھ لے جاتے ہیں۔ ان دیسی بکروں کے گوشت کا ذائقہ شہری میٹ شاپس کے گوشت سے الگ ہی ہوتا تھا۔ نہا کر ناشتہ کیا ناشتے میں رات کا بچا ہوا گوشت اور تازہ تندوری پراٹھے تھے، آپ کہیں گے یہ تندوری پراٹھے کیا ہوتے ہیں؟ چلیں بتاتا چلوں کہ یہ ایسے پراٹھے ہوتے ہیں جن کے اندر تو گھی لگایا جاتا ہے لیکن باہر سے خشک روٹی کی طرح پکائے جاتے ہیں، دیسی پراٹھوں نے گوشت کے ساتھ بہت مزا دیا۔ سات بجے ہم سب کو اللہ حافظ کہہ کر گھر سے نکل آئے، اب سارے رستے اترائی تھی، 15 بیس منٹ میں ہم موہڑہ گاؤں پہنچ  گئے۔ چینی ٹرک بچے کو سلام کیا، گوشت کے شاپر قدموں میں رکھ لیے اور اللہ کا نام لے کر چل پڑے۔ واپس آتے ہوئے راستے میں پیدل چلتے کئی کشمیری بھائیوں کو بھی ٹرک میں بٹھا لیا کیونکہ یہاں شہر جیسی سفری سہولت کم میسر آتی ہے، یوں ہم قریباً آدھے گھنٹے پینتیس منٹ میں ہولاڑ پہنچ گئے، سب کو وہاں اتارا اور خود کہوٹہ کی طرف چل پڑے، کروٹ ہائیڈروپاور پراجیکٹ کا کام زور و شور سے جاری تھا۔

بارل سے وادئ گیہہ ہولاڑ سفری بلاگ اور ایک دعوت ولیمہ

بارل سے وادئ گیہہ ہولاڑ سفری بلاگ اور ایک دعوت ولیمہ 
بلاں بارل سے واپسی پر بابو عزیز کے بڑے بھائی بھی ساتھ سوار ہو گئے، انہیں راستے میں اسلام پورہ میں اتارا تو پتہ چلا کہ آزاد پتن روڈ پر لینڈ سلائیدنگ ہو گئی ہے جس کی وجہ سے ٹریفک کی لمبی لائن لگ گئی ہے۔ ہم بھائیوں کے لیے ایک لحاظ سے یہ اچھی خبر بھی تھی اور بری بھی، بری اس لحاظ سے کہ آگے رستہ بند تھا، اچھی اس لیے کہ ہمارا سوا گھنٹے کا سفر بچ گیا۔ اب ہم نے پروگرام میں تبدیلی کی اور  پنجاڑ کی بجائے براستہ چھے چھن و ہولاڑ جانے کا فیصلہ کر لیا۔ پلندری روڈ بائی پاس سے ہم نے نمب کا رخ کیا، نمب یقین کریں کہ وادئ پلندری کا دل کہلانے کے قابل پُرفضا مقام ہے، جس کے چاروں چانب پہاڑ اور پہاڑوں پر چیڑھ کے سروقد درخت سر اٹھائے کھڑے تھے۔ نمب وادی میں سرسبز و شاداب پھلوں کے بے شمار درخت، ندی، نالے، جھرنے، قدرتی سوئمنگ پولز موجود ہیں صرف اچھی سڑک، چند اچھے ریسٹورنٹس اور پلے لینڈ بنا دیا جائے تو یہ جگہ بنی بنائی ریزارٹ ہے۔ نمب کی فضا اس قدر سکون پرور ہے کہ جس کا کوئی اندازہ نہیں۔ خیر ہم سیلانی مسافروں کو ٹھہرنے کی اجازت نہیں تھی سو میں راہ چلتے آنکھیں اور دل ٹھنڈے کر کے دماغ کے میموری میں فیڈ کرتا جا رہا تھا۔ 25 منٹ بعد ہم چھے چھن(خان آباد) پہنچ گئے، چھے چھن کیا تھا؟ ادھر ادھر بکھری ہوئی بے ترتیب 15 بیس دکانوں پر مشتمل بازار نما سا علاقہ تھا۔ اس کے چھے اطراف میں مختلف درے نکلتے ہیں یقیناً اسی وجہ سے اس کا نام چھے چھن پڑا ہو گا کیونکہ ہوا اور روشنی ان دروں سے چھن کر علاقے میں داخل ہوتی ہے۔

باغ سے راولاکوٹ، پلندری، بارل ہولاڑ کا سفری بلاگ

باغ سے راولاکوٹ، پلندری، بارل ہولاڑ کا سفری بلاگ
باغ میں اپنا کاروباری معاملات نبٹانے کے بعد بھائی نے سامان کو کسنے والے رسے اور بیلٹس ٹول بکس میں پھینکے، مجھے دومیل پل/نالہ ماہل اور مہلوانی کے جنکشن برج سے پک کیا اور ہم باغ کو الوداع کہہ کر چل پڑے۔ دس بجے کا وقت تھا اور شہر کی چہل پہل میں اضافہ شروع ہو گیا تھا۔ نعمان پورہ سے وادئ باغ کو پھر ملنے کا وعدہ کر کے خدا حافظ کہا۔ بائیں جانب اوپر پانیولہ، ہلاں اور بنگوئیں نطر آیا جہاں ہمیں تھوڑی دیر بعد پہنچنا تھا۔ باغ سے نکلتے ہیں شاہراہِ حریت ٹریفک سے خالی ملی تو خالی چینی ٹرک بچہ فوٹان فراٹے بھرتا بنی پساری، ہاڑی گہل، کفل گڑھ، منگ بجری کو کراس کرتا ارجہ کی جانب چل پڑا۔ ارجہ شہر میں معمولی سا رش تھا۔ نالہ ماہل ارجہ پل کراس کرتے ہی بارش ہونے شروع ہو گئی، آگے قدرے مشکل چڑھائی تھی، سڑک پر پانی ریت اور مٹی  کا لیپ سے ہوتا جا رہا تھا لیکن خیر ہو چینی ٹرک بچے فوٹان کی کہ اس نے عمودی چڑھائی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ہمیں تھوڑی دیر میں راولاکوٹ راولپنڈی روڈ پر ڈال دیا۔ جیسے ہی اوپر چوٹی پر پہنچے دائیں جانب جنڈالہ، داتوٹ اور پوٹھی وغیرہ کا علاقہ نظر آیا، لیکن ہم نے راولاکوٹ کی طرف جانا تھا اس لیے ہم روڈ پر بائیں جانب کو مڑ گئے، جیسے ہی راولا کوٹ روڈ پر آگے بڑھے تو بائیں جانب نیچے باغ کا شہر دکھائی دیتا تھا اور دائیں جانب دور کر کے بنگوئیں کا قصبہ نظر آ رہا تھا۔ بنگوئیں میں کچھ محل نما گھر دکھائی دئیے جو دور سے بہت خوبصورت نظر آ رہے تھے۔ ذرا آگے چلے تو ہلاں کا قصبہ آ گیا جو سڑک کے ساتھ ہی ہے جہاں چند دکانیں اور پختہ گھروں کے ساتھ پرانے گھر بھی دکھائی دئیے۔ بنگوئیں دائیں جانب اور بائیں جانب جالوٹھ، انہاری اور ڈوگی نڑھ آ جاتا ہے دائیں جانب جانب جالوٹھ کا گھنا  جنگل بھی دکھائی دیا، اگر کوشش کی جائے تو اس ایریا میں بڑا اچھا ٹریکنگ اور ہائیکنگ پوائنٹ بن سکتا ہے۔ دس منٹ کی ڈرائیو کے بعد ہم سب ڈویژن پانیولہ پہنچے، پانیولہ مطلب پانی والا، یہاں زیرزمین پانی کافی ہے اغلب امکان یہی ہے کہ اسی وجہ سے اس چھوٹے سے شہر کا نام پانیولہ پڑا ہو گا۔

Monday 22 June 2020

ملوٹ ستیاں راولپنڈی سے باغ آزاد کشمیر تک کا سفری بلاگ

ملوٹ ستیاں راولپنڈی  سے باغ آزاد کشمیر تک کا سفری بلاگ

 کلیاڑی/ٹائیں پل سے دریائے جہلم کو کراس کیا تو مغرب کا وقت ہو چلا تھا، یہاں کی سڑکیں ملوٹ ستیاں کے مقابلے میں بہتر اور کارپٹڈ تھیں صرف چند جگہوں پر جہاں جہاں لینڈ سلائیڈنگ ہوئی تھی وہاں محکمۂ شاہرات والے کام کر رہے تھے۔ یہاں سے راولاکوٹ کے علاقے ٹائیں ڈھلکوٹ کی حدود کا آغاز ہوتا ہے، تمام راستہ چڑھائی ہی چڑھائی تھی، میں پہلی بار چینی ٹرک بچے فوٹان پر سفر کر رہا تھا، میں نے معنی خیز لہجے میں پوچھا کہ "یہ ٹرک بچہ چڑھائی چڑھ جائے گا؟"۔ بھائی نے کہا "صرف ارجہ کی چڑھائی مشکل ہے باقی سارا روڈ بڑے سائنٹفک انداز میں بنایا گیا ہے گھما پھرا کر روڈ اوپر لے جاتے ہیں، سفر تھوڑا طویل ضرور ہو جاتا ہے لیکن ہے بڑا محفوظ، پاکستان کی طرح عمودی چڑھائی بنا کر ڈرائیور اور گاڑی کا امتحان نہیں لیتے"۔ جیسے جیسے سفر کرتے گئے تو اندازہ ہوا کہ عمودی چڑھائی کی بجائے سڑک کو گھما پھرا کر کے سفر کے لیے قدرے آسان بنا دیا گیا ہے۔ سڑک واقعی بہت اچھی بنی تھی اور اس پر سفر کرتے ہوئے کوئی جھٹکا بھی نہیں لگ رہا تھا۔ سڑک دریا کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ اوپر کو جا رہی تھی، چند کلو میٹر آگے جا کر ایک رستہ آگے کوہالہ کی طرف چلا گیا جبکہ ایک اوپر کی جانب جا رہا تھا، ہم اوپر والی سڑک پر چل پڑے۔ چند کلو میٹر تک دونوں سڑکیں ایک دوسرے کے ساتھ متوازن چلتی رہیں پھر دریائے ماہل/نالہ مہل سے پہلے راولا کوٹ باغ روڈ دائیں کو مڑ گئی جہاں قدرے عمودی چڑھائی تھی، لیکن چینی ٹرک بچہ لدا ہونے باوجود چیختا چنگھاڑتا چڑھائی چڑھ گیا۔ رات کا اندھیرا چھا چکا تھا اور عقب میں ملوٹ ستیاں کی روشنیاں جگ مگ جگ مگ کرتی دکھائی دیتی تھیں۔ چڑھائی کراس کی تو ہم نے خود کو اور چینی ٹرک بچے کو ریسٹ دینے کا سوچا، چڑھائی چڑھ کر دریائے جہلم اور دریائے ماہل کے سنگم کی پہاڑی چوٹی پر واقع چنار ریسٹورنٹ کی پارکنگ میں بریک لگائی، ٹرک کے ٹائروں کے آگے پیچھے کنکریٹ کے بلاک لگائے تاکہ یہ کہیں گھسٹنا نہ شروع کر دے۔

راولپنڈی سے ملوٹ ستیاں تک کا مسحور کن سفری بلاگ

راولپنڈی سے ملوٹ ستیاں تک کا مسحور کن سفری بلاگ
بڑے بھائی شفیق اور ماموں زاد وحید کے بعد چھوٹا بھائی شعیب جس کا کنسٹرکشن کا کاروبار ٹھیک نہیں چل رہا تھا، اسے بھائی نے اپنے ساتھ باربرداری/ٹرانسپورٹ کے کاروبار میں لگا لیا۔ دو سال میں جب وہ ڈرائیوری اور دیگر معاملات میں ماہر ہو گیا تو ایک دن مجھے کہنے لگا "آپ کوٹلی کی طرف بہت گئے ہیں، ایسا کریں آپ اس بار میرے ساتھ باغ چلیں"۔ اب میں اسے کیا بتاتا کہ "اس کٹے کئی چیتر کٹے"، مطلب یہ گھوڑا سبھی میدان مار چکا ہے، گو کہ کالج دور میں کئی دوستوں کے ساتھ باغ، راولاکوٹ، نیلا بٹ وغیرہ کے کئی ٹرپ لگا چکا تھا لیکن، کالج دور کے بعد کافی عرصہ سے ادھر جانا نہیں ہوا تھا، سوچا شعیب رات کا سفر کرتا ہے، اکیلا آتا جاتا ہو گا چلو اس کا ساتھ بھی بن جائے گا اور اپنی یاد بھی تازہ ہو جائے گی، اس لیے میں نے کہا کہ "ٹھیک ہے اگلی بار باغ چلے چلتے ہیں"۔ اس نے جانے سے ایک دن قبل گاڑی لوڈ کر کے کھڑی کر دی، پروگرام یہ تھا کہ دوپہر کے وقت جب ٹریفک کم ہو گی تو اس وقت کھانا کھا کر سفر کا آغاز کریں گے۔ پچھلے پہر سفر کرنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا  ٹریفک کم ہونے کے ساتھ ساتھ سفر کی طوالت کے بعد جب آپ شام کو دیر سے کشمیر پہنچتے ہیں تو سادہ مزاج کشمیری دکانیں بند کر کے گھر واپس جا چکے ہوتے ہیں، پوری رات انتظار سے بہتر ہے پچھلے پہر راولپنڈی سے نکلیں، اور رات کو سفر کرتے ہوئے اگلے دن صبح صبح وہاں پہنچیں، سامان ان لوڈ کروا کررش آور سے پہلے پہلے واپس آ جائیں۔ ایک بجے دن کو کھانا کھا کر دونوں بھائی چینی ٹرک بچے فوٹان میں سوار ہوئے، پیرودھائی موڑ سے پشاور روڈ سے آئی جے پی روڈ پر مڑتے ہوئے فیض آباد کی طرف چل پڑے۔ ایک دو جگہ خاص کر فیض آباد میں کافی رش تھا لیکن اسلام آباد ہائی وے پر مڑے تو روڈ خالی تھا اور ہم جلد ہی لہتراڑ روڈ پر مڑ گئے۔ لہتراڑ روڈ  جو کبھی گرمیوں میں ہمارے لیے سوئمنگ اور فشنگ پوائنٹ ہوا کرتا تھا اب آہستہ آہستہ نئی آبادی میں ڈھل رہا تھا، جیسے ہی مڑے تو برما ٹاؤن بائیں اور غوری ٹاؤن دائیں جانب خوش آمدید کہہ رہے تھے۔

Sunday 21 June 2020

آزاد کشمیر گیہہ سے وادئ رمبلی تک کا پیدل سفری بلاگ

آزاد کشمیر گیہہ سے وادئ رمبلی تک کا پیدل سفری بلاگ
ولیمے کے بعد جلد ہی بھرا پرا گھر خالی ہونے لگا کیونکہ مہمان واپس جانا شروع ہو گئے تھے، خاص کر گوجرخان، مندرہ، راولپنڈی اور کہوٹہ کے زیادہ تر مہمان تو کھانا کھا کر مبارکباد دے کر، اجازت طلب کر کے واپس چلے گئے تھے۔ بھائی شفیق، ماں جی، بھابھی اور مندرہ پارٹی سبھی اکٹھے ہی واپس چلے گئے۔ راولپنڈی سے میں اور اور کہوٹہ سے وحید رہ گئے، ہم سب نے سارا سامان سمیٹ کر ایک طرف رکھ دیا۔ ماموں مظہر جنہوں نے اگلے دو سال میں اس گھر کا داماد بننا تھا، اپنے سسر سے اجازت طلب کی اور پھر ہم تینوں ماموں بھانجے کٹھہ گیہہ سے رمبلی کی طرف پیدل روانہ ہو گئے۔ یہ رستہ بڑا ہی کٹھن اور دشوار گزار ہے، یوں سمجھیں کہ نازک دل افراد کے لیے تو بالکل موزوں نہیں ہے۔ گیہہ سے اوپر چوٹی تک بڑا آسان رستہ ہے لیکن آگے بالکل 70 درجے کا ڈھلوانی رستہ ہے جو سانپ کی طرح بل کھاتا پہلے تھوڑا بائیں جاتا ہے پھر واپس دائیں بالکل پہاڑی علاقے کی سڑکوں کی طرح، کہیں کہیں تو جنگل اتنا گھنا ہے کہ گہری شام کا سا منظر پیش کرنے لگتا اور کہیں ایک دم چٹیل علاقہ آ جاتا، یہ چٹیل حصے سب سے خطرناک ہیں کیونکہ ان میں رستہ نام کی کوئی شے نہیں بس پیر رکھنے کی جگہ بنی ہوئی ہے اور یہ چٹیل چٹانی حصہ کئی کئی جگہوں پر تو 80 ڈگری کی طرح سیدھا ہے جہاں چٹان سے سینہ لگا کر سرک سرک کر ایک ایک پیر رکھ کر آگے بڑھنا پڑتا تھا۔ اللہ اللہ کر کے یہ مشکل حصہ پار کیا تو سامنے قدرے بہتر راستہ ہمارا منتظر تھا۔ تھوڑا سا آگے گئے تو چھترورا کا چھوٹا سا گاؤں ہمارے رستے کے بالکل نیچے ہمیں اپنی طرف آنے کی دعوت  دیتا نظر آیا، لیکن چونکہ یہ ہماری منزل نہیں تھی اس لیے ہم نے "پھر ملیں گے" کہہ کر اپنے راہ لی۔ چٹیل حصے کی رکاوٹوں کو پار کر کے، چھترورا سے آگے نکلے تو جنگل پھر سے گھنا ہو گیا، اب ہم ڈھلوانی جنگل پر مشتمل رستے کے بالکل درمیانی حصے پر چل رہے تھے۔ اگر آپ کے پاس وقت ہو تو اس پہاڑی جنگل کو ایک دو دن ضرور دیجیئے گا کیونکہ یہ علاقہ قدرتی ٹریکنگ اور ہائیکنگ کے لیے ایک بہترین سپاٹ ہے۔

Friday 19 June 2020

قصہ ایک بارات کا جسے چند گز کا فاصلہ طے کرنا پڑا

قصہ ایک بارات کا جسے چند گز کا فاصلہ طے کرنا پڑا
آپ کہیں گے کہ ایک شادی کے قصے کو اتنا لٹکا رہا ہوں، تو قارئین جب چار دن پہلے پہنچیں گے تو ہر دن کی روداد بھی تو ساتھ ساتھ لکھنی تھی ناں اور ویسے بھی یہ میری یاداشتیں ہیں، کیا پتا کل چاچا مستنصر حسین تارڑ کی طرح اپنا سفرنامہ ہی ترتیب دے دوں۔ خیر گھبرائیے نہیں بھائی ساجد جن کی شادی کا یہ واقعہ رقم کرنے جا رہا ہوں اس شادی کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں دلہا دلہن کے گھر کے مابین صرف 3 گز کا ہی فاصلہ ہو گا۔ دلہا دلہن دونوں آپس میں ماموں زاد و پھوپھی زاد ہیں، دونوں گھروں کے مابین صرف 9 فٹ کا رستہ حائل ہے، اگر دونوں گھروں کا لیول ایک ہوتا تو شاید صحن بھی ایک ہوتا لیکن چونکہ ایک گھر اونچا اور دوسرا قدرے نیچے ہے اس لیے بیچ میں رستہ چھوڑا گیا ہے۔ لیکن یقین کریں کہ جب بارات جائے گی تو یہ 3 گز کا فاصلہ بڑھ جائے گا، یہ کیسے ہو گا، اسے جاننے کے لیے بس آپ کو شادی کی روداد کو غور سے پڑنا ہو گا۔ رات کو کچھ مہمان پہنچ گئے تھے، اور باقی بھی تقریباً 2 بجے تک آن پہنچے۔ اب ہر طرف گہما گہمی کا دور دورہ تھا۔ ہم جوانوں نے مل کر کھانا کھلانے کے لیے ایک ہموار جگہ کو صاف کر کے کھانے کی میزیں اور کرسیاں لگا دیں، یہ سیٹ اپ اگلے ایک دو دن تک وہیں لگا رہنا تھا۔ شام ڈھلتے ہیں دلہا اور دلہن کے شادی کے دوست/شہ بالے آن پہنچے، لڑکے ڈھول کی تھاپ پر ناچتے اور دلہا کے لیے "گانا" لائے تھے، جو ان کے شادی کے دوست نے ان کے دائیں ہاتھ میں پہنایا۔ یہ گانا رنگدار دھاگوں کا بنا تھا جیسے ہندوؤں میں "رکھڑی" پہنائی جاتی ہے ویسے ہی بنا ہونا ہے لیکن ذرا سائز میں بڑا ہوتا ہے۔ اسی طرح دلہن کی شادی کی سہیلی بھی اس کے لیے ڈھولکی کی تھاپ پر اپنے گھر سے دلہن کے گھر تک لائی اور بالکل دلہا کے دوست کی طرح "گانا" دلہن کے ہاتھ پر باندھ دیا۔ 800 کنال پر محیط کھٹہ گیہہ میں یہ دو ہی گھر تھے، باقی گھر نیچے وادی میں تھے، لیکن اتنی کھلی جگہ تھی کہ جن جن کو جو جگہ پسند آتی وہاں کرسیاں ڈال کر بیٹھ کر اپنی اپنی الگ ٹولی بنائے ہوئے گپیں ہانک رہے تھے۔

Thursday 18 June 2020

IV راولپنڈی سے وادئ گیہہ ہولاڑ کوٹلی کا سفری بلاگ

 IV راولپنڈی سے وادئ گیہہ ہولاڑ کوٹلی کا سفری بلاگ
چاہے آپ کتنے ہی تھکے ہوئے کیوں نہ ہوں گاؤں کے ماحول میں ایک دو دن رہنے کے بعد آپ کی عادت بن جاتی ہے کہ آپ جلدی اٹھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں بھی حسب سابق صبح صبح اٹھ کر چشمے کے پاس موجود غسل کے لیے بنائی  گئی مخصوص جگہ پر نہا کر واپس آ کر چولہے کے پاس ہی ناشتہ کرنے بیٹھ گیا۔ ناشتہ کرنے کے بعد سبی مرد و جوان جنگل  کی طرف روانہ ہو گئے۔ آج کے دن کا پروگرام یہ تھا کہ جو لکڑیاں کل کاٹ کو چیر کر سٹاک کی گئیں تھیں، انہیں گھر تک لانا تھا۔ پہاڑی راستہ اور کافی فاصلہ ہونے کی وجہ سے یہ طے کیا گیا تھا کہ پاس کے گاؤں سے مزدوری کے چند گدھے منگوا کر ساری لکڑی گھر تک لائی جائے۔ ایک دو کو چھوڑ کر سبھی جوان و مرد جنگل کی طرف چلے گئے، جہاں گدھا سروس والے بھی تیار بیٹھے تھے، ہم لادتے گئے اور گدھا سروس والے لکڑیاں گھر پہنچاتے گئے۔ کام مشکل تھا لیکن الحمدللہ دن کے دو اڑھائی بجے تک سارا کام مکمل ہو گیا، آخری پھیرے کے ساتھ ہم بھی گھر واپس آ گئے تین بجنے والے تھے اور بھوک سے برا حال تھا۔ شاید آپ سوچ رہے ہوں کہ ساگ تیار ہو گا، لیکن قارئین انتظار کیجیۓ کہ ساگ کی باری شام کے لیے تھی۔ ماشاءاللہ بے جی ابھی سے اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھی ساگ پکانے کے لیے تمام تیاریاں مکمل کر رہی تھیں بلکہ کر چکی تھیں۔ ہم سب ابلے چاول، مسور کی دال، سلاد، چٹنی اور دہی کے ساتھ اس دعوتِ شیراز سے لطف اندوز ہونے لگے۔ سچی بات یہ ہے کہ بھوک کا مزا ہی تب آتا ہے جب آپ نے کوئی مشقت کا کام کیا ہو، آج کے دن کی سادہ دال چاول کی دعوت شیراز کھانے کے بعد اللہ پاک کا شکر ادا کیا کہ ہم اس قابل نہیں تھے لیکن وہ رازق ہمیں پھر بھی اچھی سے اچھی غذا کھانے کو دیتا ہے۔

Tuesday 16 June 2020

III راولپنڈی سے وادئ گیہہ ہولاڑ کوٹلی کا سفری بلاگ

III راولپنڈی سے وادئ گیہہ ہولاڑ کوٹلی کا سفری بلاگ

صبح صبح اٹھ کر ناشتہ کیا اور میں بھائی تصدق اور ان کے والد اس علاقے کے لوکل کونسلر کے گھر کی  طرف روانہ ہو گئے، جن کے ذاتی ملکیت کے جنگل سے لکڑی کے حصول کے لیے بات کی گئی تھی۔ موصوف کافی ملنسار انسان نکلے، انہوں نے مجھے پہچان لیا اور پوچھا کہ "کل آپ ہی گھومنے کے لیے اوپر چوٹی کی طرف جا رہے تھے؟"، میں نے بتایا کہ "جی میں ہی تھا اور مجھے گھومنے پھرنے کا شوق ہے، اسی سلسلے میں کل اوپر چوٹی کی طرف چلا گیا تھا"۔ باتوں باتوں سے پتہ چلا کہ کسی زمانے میں ان کی اہلیہ بیمار ہوئیں تھیں تو وہ ان کے علاج کے سلسلے میں ہمارے ہاں راولپنڈی ایک دن ٹھہرے تھے، ان کے ساتھ ماموں فضل داد بھی آئے تھے، جب انہوں نے یاد کروایا تو وہ بڑے خوش ہوئے، ماں جی اور ابا جی کے بارے میں پوچھا۔ بڑے خلوص سے ہمارے لیے چائے بنوائی، چائے پی کر وہ ہمیں لے کر ذاتی ملکیت کے جنگل میں گئے جہاں تین عدد گرے ہوئے چیڑھ کے درخت دکھائے گئے، جو دیکھنے میں خشک لگتے تھے اور خشک لکڑی جلانے کے لیے بہترین سمجھی جاتی ہے۔ دو قدرے درمیانے سائز کے چیڑھ کے درخت خرید لیے گئے۔ فیصلہ یہ ہوا کہ وہ محکمۂ جنگلات والوں سے "چین سا/ آرے" کے استعمال کی اجازت دلوانے اور آرا کرائے پر دلوانے ہمارے ساتھ چلیں گے جو پاس والے گاؤں میں ہی رہتا ہے۔ ان دنوں آزاد کشمیر میں چین سا کے استعمال پر پابندی تھی، صرف محکمۂ جنگلات کو اس کے استعمال کی اجازت تھی تاکہ جنگلاتی کی غیر قانونی کٹائی کو روکا جا سکے۔

II راولپنڈی سے وادئ گیہہ ہولاڑ کوٹلی کا سفری بلاگ

II راولپنڈی سے وادئ گیہہ ہولاڑ کوٹلی کا سفری بلاگ
جیسا کہ پچھلی قسط میں بتایا کہ ہم کیسے راولپنڈی سے وادئ گیہہ ہولاڑ کوٹلی پہنچے۔ منزل پہ پہنچ کر تھکے ہارے مسافران کھانا کھا کر برامدے میں آرام کرنے کے لیے لیٹ گئے۔ لیکن میں کھانا کھا کر سونے کی بجائے گھومنے کے بارے سوچنے لگا،  نظر گھمائی تو گھر کے عقب میں اس علاقے کی سب سے بلند ترین چوٹی پر نظر پڑی، سوچا آج اسے سر کرتے ہیں۔ وہاں جانے کے لیے بھائی تصدق کے گھر کٹھہ گیہہ سے شمال کی جانب دو ہزار میٹر تک تو رستہ قدرے ہموار ہے لیکن اس سے آگے 70 کے زاویے کی عمودی چڑھائی ہے جو کم از کم ایک میل بلند ہو گی، لیکن جیسے پہاڑی راستے ہوتے ہیں کہ گھوم گھما کر جانا پڑتا ہے تو اس لحاظ سے کم از کم 4 میل چڑھائی تو ضرور رہی ہو گی۔ اس ہائیکنگ کے دو مقاصد تھے، ایک وجہ تو قدرے تاخیر سے کھانا کھانا تھا، اب کھانا لیٹ کھایا تھا تو اسے ہضم بھی تو کرنا تھا، خیر بندروں کی طرح کبھی ہاتھ سے پتھر، کبھی جھاڑی یا درخت کو پکڑ کر کبھی ون بائی ون پہ بھروسہ اور ہمت کر کے میں تقریباً 35 منٹ کی مسلسل محنت سے میں ٹاپ/چوٹی تک پہنچ ہی گیا۔ پانچ منٹ تک تو وہیں لیٹ کر سانس ہموار ہونے کی کوشش کرتا رہا، اس سارے عمل میں جہاں پھیپھڑوں کی واہ واہ ایکسرسائیز بھی ہوئی لیکن جب ہوش آیا تو وہاں سے جب 360 ڈگری کا قدرتی نظارہ کیا تو سمجھیں اس سفر کے پیسے وصول ہو گئے۔ مغرب کی جانب سے آنے والی دریائے جہلم کی ٹھنڈی ہوا نے ساری تھکاوٹ پل بھر میں دور کر دی۔ سب سے پہلے نیچے وادئ رمبلی و بابوٹ کی طرف منہ کر کے آواز لگائی "ماموں مظہر"، یہ میری ماں جی کے سب سے چھوٹے چچا زاد بھائی تھے جو اب اس دنیا میں نہیں بے چارے جوانی میں ہی فوت ہو گئے تھے۔ پہاڑی علاقے کے مواصلاتی سسٹم  کے مطابق تین چار بار آوازہ لگایا تو نیچے سے آواز آئی "کون؟" میں نے کہا "پہچان لے فوجیا" تو انہوں نے فوراً پہچان کر کہا "اوئے باندرا تو یہاں آن پہنچا؟"، میں نے کہا " میں باندر تو آپ کیا ہوئے؟ بندر ماموں؟ میں نے وعدہ کیا تھا تو آنا تو بنتا تھا ناں"۔

Saturday 13 June 2020

I راولپنڈی سے وادئ گیہہ کوٹلی آزاد کشمیر کا سفری بلاگ

I راولپنڈی سے وادئ گیہہ کوٹلی آزاد کشمیر کا سفری بلاگ
کالج میں گرمیوں کی چھٹیاں ہو چکی تھیں، گھر میں بیٹھنا قید لگ رہا تھا، سوچ رہا تھا کیا کروں کہ بوریت دور ہو، اتنے میں خالہ زاد سعید آن پہنچا، یہ کزن ابوظہبی میں جاب کرتا ہے، اکثر آتا ہے تو مجھے بھی گھسیٹ کر ساتھ لے جاتا ہے۔ لیکن اس نے اس بار جو خبر سنائی وہ یہ تھی کہ ان کے پھوپھی زاد جو ایک اور رشتے سے ہمارے خالہ زاد بھی لگتے ہیں کیونکہ بھائی تصدق اور ساجد کی والدہ ہماری ماں جی کی سگی پھوپھی زاد بھی ہیں۔ سعید نے بتایا کہ "اگلے ایک دو ہفتے میں بھائی ساجد کی شادی ہونے جا رہی ہے تیاری پکڑ رکھو"۔ یہ سننا تھا کہ میں نے بیڈ سے نیچے چھلانگ لگائی اوہ کہا "تیاری کی ایسی کی تیسی، چل میرے ساتھ چل"۔ جتنی دیر میں ماں جی کھانا تیار کرتیں ہم دونوں پیرودھائی موڑ پشاور روڈ سے اپنی اپنی پسند کی کوہاٹی چپلوں کے دو دو جوڑے لے آئے۔ کھانا کھا کر وہ کہنے لگا " ہو سکتا ہے اس بار ظہور بھی ساتھ جائے"۔ میں نے کہا "تم جا کر اس کے ساتھ فائنل کرو، مجھے بتا دینا ہم تینوں اور اس کے علاوہ بھی کوئی جانے والا ہوا تو کچھ دن پہلے نکل جائیں گے"۔ چند دن بعد شادی کے دن فکس ہو گئے تو بھائی تصدق(دلہا کے بڑے بھائی) جو ان دنوں ماموں خان اکبر کا گھر تعمیر کر رہے تھے، ہمارے ہاں باقاعدہ شادی  کا سدا/دعوت دینے آئے، مجھے کہنے لگے کہ "تم نے میرے ساتھ ہی چلنا، تمہیں ویسے بھی چھٹیاں ہیں اور کام کاج کافی ہو گا تم ہو گے تو مجھے کافی سہارا مل جائے گا"۔ سعید کو فون کیا کہ "بھائی تصدق کا یہ پروگرام ہے، تم بتاؤ کیا پروگرام بنا ہے؟ نہیں بنا تو ان کے ساتھ ہی نکل چلتے ہیں"۔ پروگرام یہ طے ہوا کہ جمعہ کو شادی ہے لیکن ہم سوموار کی دوپہر نکلیں گے۔ شام کو دیکھتا ہوں تو جناب دولہا صاحب بھی تشریف فرما تھے، ان کو بتایا کہ "ہمارا سوموار کو جانے کا پروگرام ہے، آپ بھی انہی دنوں چھٹی لے لو اور ہمارے ساتھ ہی چلنے کی تیاری کرو"۔ اس طرح مندرہ راولپنڈی کے بزرگوں نے پروگرام یوں طے کیا کہ گدر گوال/لڑکے بالے پارٹی سوموار کو نکل جائے گی اور بزرگان وغیرہ دو دن پہلے پہنچ جائیں گے۔

Friday 12 June 2020

راولپنڈی سے براستہ کوٹلی آزاد کشمیر تک کا سفری بلاگ

راولپنڈی سے براستہ کوٹلی آزاد کشمیر تک کا سفری بلاگ
مجھ سے بڑے بھائی باربرداری ٹرانسپورٹ کا کام کرتے ہیں، زیادہ تر آزاد کشمیر، گلگت و بلتستان اور خیبر پختونخوا کی طرف آنا جانا رہتا ہے، وہ زیادہ تر عمارتی شیشہ، لکڑی و پلائی ووڈ وغیرہ کی سپلائی کا کام کرتے ہیں۔ اکثر اوقات لوڈنگ، اپنے شہر کی ٹریفک سے نکلنے اور اگلے شہر کی ٹریفک کو دیکھ کر سفر پلان کرتے ہیں اور مجھے لے جانا ہو تو کہہ دیتے ہیں کہ لوڈنگ سے واپسی پر تیار رہنا چلے چلیں گے۔ آزاد کشمیر میں جاتے وقت کئی بار مجھے بھی ساتھ لے لیتے ہیں کہ چلو اور نہیں تو گاڑی کو دھکا اور چور ڈاکو کو بٹا مارنے کا کام تو کر سکتا تھا۔ ایک بار کہنے لگے میں خواجہ گلاس جا رہا ہوں، شیشہ لوڈ کر کے 1 بجے پشاور روڈ پہنچ جاؤں گا، تیار رہنا۔ ساتھ میں ایک چادر رکھنے کا آرڈر دیا کیونکہ رات کو کشمیر میں کافی ٹھنڈ ہو جاتی ہے۔ بھائی کو کراچی کا پانی راس نہیں آیا جس کی وجہ سے السر کا شکار ہو گئے تھے، اس وجہ سے بہت کم باہر کھانا کھاتے ہیں۔ صبح ناشتے کے بعد لوڈنگ کے لیے نکلتے ہیں اور دن کا کھانا گھر میں کھا کر کچھ کھانے  کے لیے ساتھ لے لیتے ہیں۔ باہر کھانا ہو تو اپنی مرضی کا پکوا کر کھاتے ہیں یا گرم فوڈ ہی لیتے ہیں۔ یوں تو مجھ جیسے پیٹو کو ان کے ساتھ جانا اچھا نہیں لگتا ہےا لیکن کوٹلی کا نام سن کر چلا جایا کرتا ہوں کیونکہ کوٹلی میں ایک بابا جی کے تکے بڑے پسند ہیں۔ بھائی لوڈنگ کر کے ساڑھے بارہ بجے گھر پہنچ گئے، مان جی نے ان کے لیے سری کا شوربہ اور میرے لیے قیمہ بنایا تھا، میں نے سفر کرنا ہو تو کم کھاتا ہوں، دو قیمے بھرے پراٹھے بنوا کر ساتھ رکھ لیے، چائے کے تھرموس بھی اور پینے کا پانی بھی ساتھ رکھ لیا۔

Tuesday 9 June 2020

دوسری بار کشمیر دیکھنے تو گئے پئے تماشا نہ ہوا سفری بلاگ

دوسری بار کشمیر دیکھنے تو گئے پئے تماشا نہ ہوا سفری بلاگ
جو کشمیر ایک بار دیکھا تھا اسے دوسری بار دیکھنے گئے تو سہی مگر ملاقات نہ ہو سکی، چلیں آپ کو اس واقعے کی آپ بیتی بھی سناتا ہوں۔ کشمیر کے بچپن کے پہلے سفر کو کئی سال گزر گئے، اس کے بعد سکول اور پڑھائی کی وجہ سے مصروفیت ایسی بڑھی کہ مجھے دوبارہ کشمیر جانے کا موقع ہی نہیں مل سکا۔  خدا خدا کر کے وہ دن بھی آ گیا، ایک بار گرمیوں کی چھٹیوں میں ماں جی کے چچا زاد بھائی ماموں سخاوت کی شادی طے پا گئی۔ حسبِ معمول ساون کا مہینہ شادی کے لیے منتخب کیا گیا، ہمیں سکول کی چھٹیاں تھیں تو اس سلسلے میں دلہا کے والد نانا محمد حسین کا حکم تھا کہ "کوئی عذر نہیں چلے گا، سب پورا ہفتہ ادھر ہی رہیں گے"، یہ شادی ہمارے لیے کوئی ہفتہ بھر کا طویل تفریحی پروگرام بن گیا۔ حسبِ معمول ماں جی ننھیالی خاندان کی سب سے بڑی اور سگھڑ اولاد ہونے کے ناطے گھر کے کاموں کی انچارج تھیں، ان کے ساتھ ماموں فضل داد اور ان کے بیٹے بھائی تصدق شامل تھے، یہ دونوں باپ بیٹا ہمارے ننھیال میں شادی بیاہ کے انتظام کھانے پکانے کے ماہر ترین افراد گنے جاتے ہیں، ان تینوں کے انڈر لڑکیوں کی ایک پوری ٹیم تھی اور جہاں کہیں ہماری ضرورت پڑتی ہمیں آواز لگا دی لگا دی جاتی۔ گاؤں کی زندگی میں یہ ہوتا ہے کہ سب اکٹھے ہوتے ہیں تو ایک ایک وقت کا کھانا کوئی رشتے دار اپنے ذمے لے لیتا ہے، ناشتہ سب اپنے گھروں میں کرتے ہیں، دن چڑھتا تو صبح تا رات گئے تک لڑکیاں اور عورتیں 'بَری' بنانے و سجانے میں لگ جاتیں۔ مرد و جوان لکڑیاں چیر کے اکٹھا کرنے اور انہیں کسی محفوظ جگہ پر سٹاک کرنے میں جٹ جاتے کیونکہ دن میں ایک دو بار بارش ہو جایا کرتی تھی۔ ہم جوان ہر کسی کے ساتھ شامل باجے ہوتے تھے۔ ہمارے ننھیال کے تین گھر تو اکٹھے تھے، ہمارے نانا مرحوم، ان کے بھائی بوستان مرحوم اور چھوٹے بھائی محمد حسین کی  فیملیاں جنجور راجگان میں رہتے تھے، جبکہ ان کے ایک بھائی قربان علی اس وقت رمبلی بابوٹ میں رہتے تھے لیکن اس وقت سبھی شادی کے سلسلے میں وہیں اکٹھے تھے۔

بچپن میں وادئ کشمیر سے میری پہلی ملاقات میرا پہلا عشق

بچپن میں وادئ کشمیر سے میری پہلی ملاقات میرا پہلا عشق
سیلانی پن کی وجوہات کا ہونا کچھ کچھ فطری بھی ہے لیکن میرے معاملے میں جبلی و فطری سیلانی پن کے ساتھ ساتھ خونی رشتوں کی کشش کی وجہ سے قدرتی ماحول سے جو ایک رشتہ بنا ننھیال و ددھیال میں آنے جانے سے اس میں اور زیادہ اضافہ ہوا۔ راولپنڈی ویسٹرج تھری میں جہاں ابا جی کا گھر واقع ہے جو کہ اس زمانے میں شہر کی آخری آبادی تھا، اس کے بعد اِکا دُکا گاؤں ہوا کرتے تھے اس کے علاوہ آس پاس کا علاقہ ہرا بھرا تھا جہاں چہاروں جانب کھیتوں کھلیانوں اور درختوں و سبزے کی بھرمار تھی، ایسے میں قدرتی ماحول سے اُنس پیدا ہونا ایک فطری بات ہو جاتی ہے۔ گاؤں کے ماحول سے جو اُنسیت تھی اس میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب مجھے سکول کی چھٹیوں کے دوران نانی کے گھر رہنے کا موقع ملا۔ خانگی ماحول سے پیدا ہونے والی اُنسیت ایک نیا موڑ اس وقت پیدا ہوا جب مجھے ماں جی کے ساتھ آزاد کشمیر کا ایک ہنگامی سفر کرنا پڑا۔ مجھے یاد ہے میں اس وقت میں چھوٹا سا تھا، سکول جانے لگا تھا کہ ہماری سب سے چھوٹی خالہ نظیر کی خانگی زندگی میں کچھ الجھنیں پیدا ہوئیں، خالہ جن کی شادی ان کے ماموں زاد برکت حسین سے ہوئی تھی لیکن، جیسا کہ اکثر شادیوں میں ہوتا ہے خالہ کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ ان کے لیے کہوٹہ جیسے نیم پہاڑی علاقے کے تین گھروں کی حویلی اور چار قدموں پر واقع گاؤں کو چھوڑ کر چھے چھن پلندری جیسے مکمل پہاڑی علاقے میں اکیلے گھر میں جا کر ایڈجسٹ کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ خالو آرمی میں تھے پیچھے ننھیال کی لاڈلی خالہ جو بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی بھی تھی کے لیے پہاڑوں کی سخت کوش زندگی میں ساس، سسر کے ساتھ رہنا مشکل تر ہو گیا، میں نے ان کا  گھر دیکھا ہے، گھر کے پاس کوئی آبادی نہیں ایسے میں جب معاملات بگڑے تو ماں جی، ماموں رحمان اور ان کے خالہ زاد ماموں الفت ایک جرگہ کہ صورت میں پلندری گئے، تو میں بھی اس امن مشن میں ان کے ساتھ بطور شامل باجہ لگا ہوا تھا۔ میرے بچگانہ ذہن کے لیے وہاں کے قدرتی ماحول کی عجیب مسحور کن کشش نے گھر کر لیا۔

Sunday 7 June 2020

گاؤں سے محبت پر مبنی بلاگ؛ وے لوکو میرا گاؤں گواچا

گاؤں سے محبت پر مبنی بلاگ؛ وے لوکو میرا گاؤں گواچا
 صبح صبح سارے کزنز جلدی جلدی اٹھ کر کمبی پہ جا کر نہائے خالہ نظیر کی دور سے خیریت معلوم کی۔ ان کا ارادہ ختم میں شرکت کرنے کا تھا اس لیے وہ واپسی پر ہمارے ساتھ ہی نانی اماں کے گھر چلی آئیں۔ ناشتہ کر کے ہم فوتگی والوں کے گھر پہچنے، ختم قل شریف کے لیے بیٹھنے اور کھانا پکانے کے بندوبست میں ہاتھ بٹانے لگے۔ 10 بجے ختم قل شریف کے تقریب شروع ہوئی اور قریباً ساڑھے گیارہ بجے تک آخری دعا سے فارغ ہوئے۔ اس دوران ہمیں کئی بار کاموں کے سلسلے میں اٹھنا پڑا، کبھی پانی لانا، کبھی چاول، گوشت مصالحہ جات کے لیے کھانے پکانے والوں کی مدد کے لیے جانا پڑا۔ 12 بجے تک کھانا تیار ہو چکا تھا، پہلے مردوں کو کھانا کھلایا گیا، پھر عورتوں بچوں اور ان کے بعد جو لوگ دیر سے پہنچے ان کو کھانا کھلا کر سب چیزوں کو ٹھکانے لگا کر قنات و شامیانے لپیٹ کر، برتن دھلوا کر، گن کر ایک جگہ رکھ دئیے گئے جو ٹینٹ سروس والوں نے آ کے لے جانے تھے۔ دعا کرنے کے بعد فوتگی والوں سے اجازت چاہی اور ہم سب کزنز نانی کے گھر واپس پہنچے، ممانی نے فوراً کھانا لگوا دیا کیونکہ ہم نے حسبِ روایت فوتگی کے گھر کا کھانا نہیں کھایا تھا۔ خالو ختم کے فوراً بعد مواڑا واپس چلے گئے تھے، ہم نے بھی نانی اور ممانی سے اجازت چاہی، وحید کو بھی میرے ساتھ راولپنڈی جانا تھا اس لیے خالہ میں، ضیا، وسیم اور وحید مواڑا کی طرف چل پڑے، خالہ اور وسیم کو بگلہ گاؤں کے پاس رخصت کیا، پاس ہی مٹور راولپنڈی کہوٹہ روڈ تھا ضیا ہمیں رخصت کرنے وہاں تک آیا، خوش قسمتی سے ہمیں راولپنڈی تک جانے والی ڈائریکٹ ویگن مل گئی، دو سیٹیں خالی تھیں اس لیے ہمارا کام بن گیا، خالہ سے پیار لے کر، ضیا سے گلے مل کر اللہ حافظ کہہ کر رخصت ہوئے اور یوں ہمارا راولپنڈی کا سفر شروع ہوا۔ گاؤں جائیں تو دل میں تجسس ہوتا ہے، فلاں جگہ جائیں گے اور اکثر اوقات ایک پھیرے میں دس دس گھر اور دو چار گاؤں بھگتا لیتے تھے، لیکن جب واپسی ہو تو دل بڑا اداس سا ہو جاتا ہے کہ جیسے کچھ کھو سا گیا ہو۔

Saturday 6 June 2020

مواڑا سے تھوہا خالصہ تا جنجور کہوٹہ کا ایک سفری بلاگ

مواڑا سے تھوہا خالصہ تا جنجور کہوٹہ کا ایک سفری بلاگ
رات کو گپ شپ کرتے گزری، کبھی کوئی کھانا کھانے بیٹھ جاتا تو کوئی چائے بنا کر لا کر رہا ہے، سحری کے وقت سبھی اٹھے اور سونے چلے گئے۔ صبح دیر سے اٹھے، اٹھے کیا بلکہ اٹھائے گئے، خالہ عزیزہ نے اٹھایا کہ "فوجیں جاگیں اگلے محاذ پہ بھی جانا ہے"۔ جلدی جلدی اٹھ کر نہا دھو کر تگڑا ناشتہ کیا اور میں خالہ عزیزہ، ان کی دیورانی اور نعیم گھر سے نکل پڑے، کچی سڑک نما ڈھلوانی رستے پر پہلے نیچے گڑھیٹ مواڑا کے برساتی نالے تک گئے اور پھر وہاں سے آگے چڑھائی چڑھنے لگے، 20 منٹ کا چڑھائی نما رستہ تھا کیونکہ ساتھ دو عدد خواتین بھی تھیں۔ اوپر چڑھ کر آگے برھیاڑی کے کس تک رستہ ہموار تھا، سرسبز و شاداب رستوں پر کدُکڑے لگاتے آگے نکل جاتے اور بیٹھ کر خالہ کا انتظار کرتے وہ آتیں تو پھر چل پڑتے، برھیاڑی گاؤں کے کنویں سے ٹھنڈا میٹھا پانی پیا اور گاؤں سے آگے کسی کی جاب ڈھلوانی رستے پر چل پڑے۔ برھیاڑی گاؤں سے بھی آپ 360 ڈگری کا نظارہ کر سکتے ہیں کیونکہ یہ بھی کافی اونچائی پر واقع ہے۔ گاؤں سے آگے کَسی اور اس سے آگے آدھ گھنٹہ کا رستہ کافی موڑدارجھاڑ جھنکار سے بھرپور تھا۔ کسی کراس کر کے اوپر پہنچے تو اب سیدھا چٹانی رستہ آ گیا تھا جو آگے گلور راجگان کے دائیں سے گزرتا ہے، گلور راجگان، ڈمبل راجگان، تھلہ راجگان اور موہڑہ راجگان واقع ہیں۔ موہڑہ راجگان کی کَسی کو کراس کریں تو کلوٹ راجگان اور تھوہا خالصہ آ جاتا ہے گویا اس طرح یہ ایک قصبہ اور پانچ گاؤں ایک ہی وادی میں واقع ہیں۔ یہ تمام گاؤں آپس میں ملے جلے سے ہیں ان دیہاتوں کے درمیان چند کھیتوں یا کَسی نما برساتی نالوں کا خالی علاقہ ہے وگرنہ سب نئے چاند کی طرح آدھی گولائی میں واقع ہیں۔ گلور سے موہڑہ راجگان تک ان گنت باغات ہیں، ہر گاؤں کے رہنے والے یا تو انگلینڈ کی طرف، باقی آرمی میں ہیں اور کچھ شہر میں جا بسے ہیں، کئی دیہاتوں میں تو گاؤں کے تین چوتھائی سے زیادہ افراد یہاں مقیم نہیں، ان کے گھر خالی پڑے ہوئے ہیں، کبھی کبھار خوشی غمی میں واپس آتے ہیں۔

Thursday 4 June 2020

جنجور سے مواڑا تک ایک ہنگامی سفر پر مبنی سفری بلاگ

جنجور سے مواڑا تک ایک ہنگامی سفر پر مبنی سفری بلاگ
صبح اٹھے، حسبِ معمول کُمبی پر جا کر نہانے کے بعد واپس آ کر نانی اماں کے ہاں شہر کے مقابلے میں کافی تگڑا ناشتہ کیا اور ظہیر کے ہاں جا کر ایک بار پھر فاتحہ خوانی کر کے واپس نانی اماں کے گھر آ گئے۔ ماں جی کا پروگرام تھا کہ وہ اور ماموں رحمان واپس جائیں گے، ماموں امی کو گھر چھوڑتے ہوئے اسلام آباد کام پر چلے جائیں گے۔ میرے ذمے رات کو ہی نانی اماں نے ڈیوٹی لگائی تھی کہ خالہ عزیزہ کو واپس تھوہا چھوڑ کر آنا ہے اور ایک ڈیوٹی ماں جی کی طرف سے بھی تھی کہ "تم مرحوم کے قل کے ختم کروا کر واپس آنا"، مجھے جیسا سیلانی اور کیا چاہے؟ سو بندہ خدمت  بجا لانے کے لیے ہمہ تن تیار ہو گیا۔ خالہ عزیزہ پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت پہلے مواڑا جانا چاہتی تھیں جہاں ان کی دیورانی کا میکہ تھا، ساتھ میں ان کی چچا زاد خالہ فضیلت بھی تیار ہو گئیں جو کہ فوتگی پر آئی ہوئی تھی اور وہ اپنے گھر جانے کے لیے ہمارے ہمراہ ہی تیار ہو گئیں۔ خالہ کو نانی اماں نے  کچھ سامان جس میں تھوڑا سا مکئی کا آٹا، دیسی گھی کا ڈبہ اور پکا ہوا ساگ کا ٹفن اس کے علاوہ نجانے اور کیا کچھ بھر دیا، میں اس الا بلا سے بھری پوٹلی کو اٹھا کر باہر نکل آیا، رستے میں قبرستان جا کر فاتحہ کی اور سب کا انتظار کرنے لگا۔ تینوں خواتین آئیں تو ہم پیدل ہی براستہ "بوڑھی نکہ" مواڑا کی طرف نکل پڑے۔ موسم بڑا رومانٹک ہوا جا رہا تھا، ہلکے ہلکے بادل چھائے ہوئے تھے اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں، ہم لس وادی سے گزرتے بوڑھی نکہ کی چڑھائی چڑھنے لگے، چڑھائی بھی عجیب سی تھی کبھی گھوم کر دائیں کو جاتی اور پھر واپس بائیں کو اوپر جانے لگتی، یہ دراصل ڈھور ڈنگروں کا بنایا ہوا رستہ تھا وہ جیسے جیسے چلتے تھے ویسے ویسے رستہ بنتا جاتا تھا، 15 منٹ بعد ہم یہ مشکل ترین چڑھائی چڑھ کر اوپر بوڑھی نکہ کی چوٹی پر پہنچ گئے، آپ کہیں گے کہ یہ بوڑھی نکہ کیا ہے؟

Monday 1 June 2020

ننھیال میں گزرے ایک ہنگامی دن پہ مبنی ایک سفری بلاگ

ننھیال میں گزرے ایک ہنگامی دن پہ مبنی ایک سفری بلاگ
ایک دن میں کافی سارا علاقہ گھومنے کے بعد جب منجی کا سہارا ملے تو بندے کو سکون ڈاٹ کام مل ہی جاتا ہے، جیسے ہی لیٹا نانی اماں میرے سرہانے کرسی رکھ کر بیٹھ گئیں، کیونکہ ان کے بقول "دوہترے نے بڑا لمبا پینڈا کھچ ماریا ہے، اس لیے تھک گیا ہو گا"۔ ان  کا سر سہلانے کی دیر تھی کہ مجھے نیند آ گئی اور میں خوابوں میں کہیں کھو گیا۔ گھنٹے بعد آنکھ کھلی تو دیکھا ماں جی اور نانی اماں آپس میں باتیں کر رہی تھیں غالباً انہی کی باتوں سے میری آنکھ کھلی تھی۔ ماں جی گھر کی بڑی اولاد ہی نہیں بلکہ پورے خاندان کی لیڈر تھیں، جب تک زندہ رہیں، دنیا جہان کا کوئی کام ہو ان کی موجودگی میں چٹکی بجاتے پورا ہو جایا کرتا تھا، کوئی بھی کام ہوتا ان کا ایک جگہ کھڑا ہو کر سب سے کام کروانے کا جو لیڈرانہ سٹائل تھا اس سے سارے کام ہو جایا کرتے تھے، مجھے یاد ہے کہ ماموں رحمان نے مجھے ایک بار کہا تھا کہ "کبھی کبھار میں 'دِدے' سے جلتا تھا کہ گھر کا اکیلا پتر میں ہوں اور نمبر سارے ددے لے جاتی ہیں۔ لیکن سچی بات ہے کہ یہ ہماری بہن نہیں باپ بھی تھی، ماں بھی بہن بھی اور گائیڈ بھی، جب یہ نہیں ہوتیں تو کام ہمارے گلے آن پڑتا ہے، بڑی مشکل سے نبٹا پاتے ہیں"۔ گھر کی بات نہیں بلکہ گاؤں بھر میں کسی کی شادی ہوتی تو گاؤں کی سہیلیاں ماں جی کو بلوانے ہمارے ہاں پنڈی آتیں اور سپیشل 'سَدا' دیا جاتا کہ "آپ نے ضرور آنا ہے" اور مجھے بھی ساتھ لانے کی فرمائش کی جاتی، مجھے بلانے کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ میں بھی الحمدللہ ماں جی کی طرح لڑکپن سے ہی ہر فن مولا تھا، شروع سے ماں جی کی تربیت میں رہا اور 16 سال کی عمر سے شادی، خوشی، غمی، اور ہسپتالوں کے دیوٹیاں نبھانے لگا تھا، گاؤں کا کوئی بیمار ہوتا تو وہ اپنے سگوں کی بجائے ہمارے ہاں رہنے کو ترجیح دیتے، ابا جی گاڑی میں لانے لے جانے کی ڈیوٹی دیتے تو ماں جی ان کی دیکھ بھال و خدمت کرتیں جبکہ میرے ذمے ہسپتالوں اور خریداری کا معاملہ چھوڑ دیا جاتا، خریداری بھی میں نے ماں جی ہی سے سیکھی کیونکہ کم از کم 20 بائیس سال تک ان کے ساتھ جا کر شاپنگ کرنے کا تجربہ رکھتا تھا۔