کلر، سکوٹ، ممیام، مٹور، مواڑا، جنجور کا سفری بلاگ
چند سال پہلے والد صاحب کی طبیعت کی خرابی کے باعث مجھے پاکستان جانا پڑا، ابا جی تو الحمدللہ جلد ٹھیک ہو گئے مگر اس دوران میری ساس کا انتقال ہو گیا، گرمیوں کے دن تھے اور اہلیہ کو ایسا ٹکٹ نہیں مل رہا تھا کہ جس سے وہ بروقت پہنچ کر والدہ کا آخری دیدار کر سکے، جو فلائٹ مل رہی تھی اس کے حساب سے وہ دوسرے دن سہہ پہر کو پاکستان پہنچ سکتی تھی اور ادھر میری سسرال والے شور شرابا کر رہے تھے کہ ”ہم زیادہ دیر انتظار نہیں کر سکتے کیونکہ سخت گرمی کا موسم ہے ایسے میں میت رکھنا مناسب نہیں لگتا“۔ اہلیہ نے کہا ”پرسوں پہنچوں گی تو تب بھی مٹی کی ڈھیری ہے اور سال بعد بھی، آپ اللہ کا نام لے کر تجہیز و تکفین کا مرحلہ نبٹا دیں، آپ واپس آئیں گے تو دوبارہ اکٹھے چلے چلیں گے“۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور میں دو ہفتوں بعد واپس چلا گیا۔ دو ماہ بعد اہلیہ کا تھائیرائیڈ ریڈیو ایکٹو ٹریٹمنٹ کا لیٹر آ گیا، جو ڈیڑھ ماہ بعد کا تھا، جس کے مطابق اس ٹریٹمنٹ کے بعد اسے کم از کم ایک سال سفر کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ سوچا اب گرمی نہیں ہو گی اور بعد میں جانا ممکن نہیں ہو گا اس لیے اکتوبر کے آخر میں تین ہفتوں کی چھٹیاں لیں اور پاکستان آ گئے۔ دوسرے دن سسرال پہنچے، اہلیہ کو والدہ کی قبر پر لے گئے، بھائی بہنوں سے ملنے کے بعد تھائیرائیڈ کا تذکرہ چھڑا تو پتا چلا اس گھر میں ہر دوسرا فرد اس مرض کا شکار ہے، میری ایک خواہر نسبتی کو بھی یہی مرض لاحق تھا، اور وہ کلر سیداں سے آگے سکوٹ میں کسی سے دم کروا رہی تھی جس سے اس کا تھائیرائیڈ کنٹرول میں آ گیا تھا، ہم نے سوچا چلو کلرسیداں آئے ہوئے ہیں، کیوں نہ سکوٹ چلے چلیں اور شاہ جی سے دم کروتے چلیں۔ میں، میری اہلیہ، بیٹی، بھتیجا طاہر اور خواہر نسبتی صاحبہ کار میں بیٹھ گئے، ان کے سسر موٹر بائیک پر ہمیں گائیڈ کرتے ہوئے آگے آگے چل رہے تھے۔