قلعہ آئن کا ماضی میں کیا گیا ایک سفر پر مشتمل بلاگ
قلعہ گردی کے سلسلے کی ایک گمشدہ کڑی جسے میں نے قلمزد تو کیا لیکن کسی وجہ سے یا تو یہ پوسٹ ڈیلیٹ ہو گئی یا میں خود ہی اسے پوسٹ کرنے سے چوک گیا۔ چلیں اس سفر کی یاد تازہ کرتے ہیں تاکہ اس مسنگ لنک کو دوبارہ سے جوڑا جائے۔ اس سفر میرے علاوہ میرے خالہ زاد سعید، ان کے دوست ظہور اور میرے اس وقت کے کالج کے دوست آصف بھی میرے ہمراہ تھے۔ میں نے اور آصف نے راولپنڈی سے کہوٹہ تک الگ سفر کیا جبکہ سعید اور ظہور دونوں مندرہ سے براستہ کاک پل سے ہوتے کہوٹہ پہنچے تھے۔ اور پھر وہاں سے ہم چاروں اکٹھے کہوٹہ کوٹلی روڈ سے ہوتے گیہہ گاؤں گئے تھے۔ چونکہ اس وقت کا چھے چھن روڈ بہت بری حالت میں تھا اور وہ والا راستہ طویل ہونے کی وجہ سے ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ کروٹ پل پر اتر کر وہاں سے دریائے جہلم کے آزاد جموں و کشمیر سائیڈ والا پیدل رستہ اختیار کیا جائے۔ ہوا یوں کہ گھر سے چلتے ہوئے ہماری ٹائمنگ گڑ بڑ ہو گئی، آصف کو کسی وجہ سے گھر سے نکلتے ہوئے دیر ہو گئی، مجھے کچہری میں اس کا طویل انتطار کرنا پڑا۔ وہاں سے ہم دونوں کہوٹہ پہنچے تو پتہ چلا کہ صرف ہم ہی نکمے نہیں نکلے بلکہ مندرہ والی جوڑی سعید اور ظہور تو ہم سے بھی ڈھلے نکلے، یہاں تک کہ ہم دونوں کو کہوٹہ میں انتظار کرتے کرتے ڈیڑھ گھنٹہ بیت گیا، خیر جس وقت یہ دونوں کہوٹہ پہنچے تو کافی دن بیت چکا تھا جس کی وجہ سے ہمیں قلعہ آئن تک جا کر اسی دن واپس آتے کا پروگرام کینسل کرنا پڑ گیا۔ کہوٹہ سے ہم نے طے کیا کہ اب ہم پہلے گیہہ گاؤں جائیں گے، رات وہاں ٹھہریں گے اور صبح ناشتہ کر کے واپسی میں داخ نالہ کی مخالف سمت سے ہوتے ہوئے دریائے جہلم کے ساتھ ساتھ چلے ہوئے آئن قلعے کی طرف جائیں گے۔ کہوٹہ سے ہوتے ہوئے ہم چاروں کروٹ پل پر اترے، اور وہاں سے دریائے جہلم کے ساتھ والے پیدل رستے سے ہوئے ہوئے تل گاؤں کے رستے گیہہ گئے تھے، تل سے داخ اور گیہہ کے سفر کو طوالت کی وجہ سے مختصر کرتا ہوں، خیر عصر کے وقت ہم سب بھائی تصدق کے ہاں گیہہ پہنچے اور رات وہیں قیام کیا۔