Pages

Monday 21 November 2022

قلعہ آئن کا ماضی میں کیا گیا ایک سفر پر مشتمل بلاگ

 قلعہ آئن کا ماضی میں کیا گیا ایک سفر پر مشتمل بلاگ

قلعہ گردی کے سلسلے کی ایک گمشدہ کڑی جسے میں نے قلمزد تو کیا لیکن کسی وجہ سے یا تو یہ پوسٹ ڈیلیٹ ہو گئی یا میں خود ہی اسے پوسٹ کرنے سے چوک گیا۔ چلیں اس سفر کی یاد تازہ کرتے ہیں تاکہ اس مسنگ لنک کو دوبارہ سے جوڑا جائے۔ اس سفر میرے علاوہ میرے خالہ زاد سعید، ان کے دوست ظہور اور میرے اس وقت کے کالج کے دوست آصف بھی میرے ہمراہ تھے۔ میں نے اور آصف نے راولپنڈی سے کہوٹہ تک الگ سفر کیا جبکہ سعید اور ظہور دونوں مندرہ سے براستہ کاک پل سے ہوتے کہوٹہ پہنچے تھے۔ اور پھر وہاں سے ہم چاروں اکٹھے کہوٹہ کوٹلی روڈ سے ہوتے گیہہ گاؤں گئے تھے۔ چونکہ اس وقت کا چھے چھن روڈ بہت بری حالت میں تھا اور وہ والا راستہ طویل ہونے کی وجہ سے ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ کروٹ پل پر اتر کر وہاں سے دریائے جہلم کے آزاد جموں و کشمیر سائیڈ والا پیدل رستہ اختیار کیا جائے۔ ہوا یوں کہ گھر سے چلتے ہوئے ہماری ٹائمنگ گڑ بڑ ہو گئی، آصف کو کسی وجہ سے گھر سے نکلتے ہوئے دیر ہو گئی، مجھے کچہری میں اس کا طویل انتطار کرنا پڑا۔ وہاں سے ہم دونوں کہوٹہ پہنچے تو پتہ چلا کہ صرف ہم ہی نکمے نہیں نکلے بلکہ مندرہ والی جوڑی سعید اور ظہور تو ہم سے بھی ڈھلے نکلے، یہاں تک کہ ہم دونوں کو کہوٹہ میں انتظار کرتے کرتے ڈیڑھ گھنٹہ بیت گیا، خیر جس وقت یہ دونوں کہوٹہ پہنچے تو کافی دن بیت چکا تھا جس کی وجہ سے ہمیں قلعہ آئن تک جا کر اسی دن واپس آتے کا پروگرام کینسل کرنا پڑ گیا۔ کہوٹہ سے ہم نے طے کیا کہ اب ہم پہلے گیہہ گاؤں جائیں گے، رات وہاں ٹھہریں گے اور صبح ناشتہ کر کے واپسی میں داخ نالہ کی مخالف سمت سے ہوتے ہوئے دریائے جہلم کے ساتھ ساتھ چلے ہوئے آئن قلعے کی طرف جائیں گے۔ کہوٹہ سے ہوتے ہوئے ہم چاروں کروٹ پل پر اترے، اور وہاں سے دریائے جہلم کے ساتھ والے پیدل رستے سے ہوئے ہوئے تل گاؤں کے رستے گیہہ گئے تھے، تل سے داخ اور گیہہ کے سفر کو طوالت کی وجہ سے مختصر کرتا ہوں، خیر عصر کے وقت ہم سب بھائی تصدق کے ہاں گیہہ پہنچے اور رات وہیں قیام کیا۔

Sunday 20 November 2022

تھروچی قلعہ گلپور کوٹلی کا روڈ ٹرپ پر مشتمل بلاگ

 تھروچی قلعہ گلپور کوٹلی کا روڈ ٹرپ پر مشتمل بلاگ

چند سال پہلے جب مجھے والدہ مرحومہ کے سانحۂ ارتحال کے موقع پر پاکستان جانے کا اتفاق ہوا۔ والدہ کی رحلت کے بعد کم و بیش دو ہفتے تو بے حد مصروفیت رہی، والدہ کے بغیر خالی گھر کاٹ کھانے کو دوڑتا تھا۔ انہی دنوں میں گورڈن کالج کے زمانے کے کلاس فیلو اور حال کے آرکیالوجسٹ دوست آصف کو والدہ کی وفات کی خبر ملی تو وہ بھی فاتحہ خانی کے لیے تشریف لائے، یہ وہ دوست ہیں جن کے ساتھ ماضی میں قلعہ آئن نزد ہولاڑ، کوٹلی، قلعہ سنگنی قلعہ نزدکلرسیداں، راولپنڈی اور اس کے بعد بھروٹہ قلعہ نزد پوٹھہ کوٹلی کے چند ٹرپس پر جا چکا تھا۔ باتوں باتوں میں موصوف نے مجھے ماحول بدلنے کا مشورہ دیا، ان کا کہنا تھا کہ مجھے ایک دن کے لیے ہی سہی کہیں باہر گھومنے جانا چاہیے تاکہ والدہ کی وفات کے صدمے کے اثر سے نکلا جائے اور یوں بھی کشمیر جیسے قدرتی ماحول سے بہتر کوئی مقام نہیں ہو سکتا تھا۔ ویک اینڈ پر ابھی رشتے داروں اور احباب کا باقاعدگی سے آنا جانا لگا رہتا تھا اس لیے ہم دونوں نے ویک ڈیز میں پروگرام بنایا کہ کیوں نہ اس بار تھرو چی قلعے کا ڈے ٹرپ لگانا چاہیے، ایک تو وہ گلپور کے مقام سے زیادہ دور نہیں ہے اور دوسرا ہم شام تک آرام سے وہاں سے ہو کر واپس گھر پہنچ جائیں گے۔ ہم دونوں آپس میں باتیں کر رہے تھے تو خالہ زاد انصر بھی پاس بیٹھا ہماری باتیں سن رہا تھا، اس نے بتایا کہ وہ آپ کل پی ٹی سی ایل کی طرف سے وی وی آئی پی ایمرجنسی ڈیوٹی پر آن کال ہے۔ اس نے مشورہ دیا کہ آپ دونوں صبح میرے ساتھ چلے چلیں، مجھے کل ویسے بھی چڑھوئی آزاد کشمیر جانا ہے، میں گلپور تھروچی تک آپ کو ڈراپ دے دوں گا، آپ اپنا ٹرپ لگا لینا اور اگر میرا کام جلد مکمل ہو گیا تو واپسی پر بھی آپ کو ساتھ لیتا آؤں گا۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھوں، پروگرام یہی طے ہوا کہ آصف رات میرے پاس ہی ٹھہرے گا، یوں ہم صبح صبح ناشتے کے بعد تھروچی کے لیے نکل جائیں گے۔ سب طے کر کے آصف بائیک پر اپنا کٹ بیگ اور فوٹوگرافی کا سامان لینے مری روڈ نکل گیا، شام کو جب وہ واپس آیا تو ہم کھا کھا کر سفر کا ارادہ کر کے رات جلدی سو گئے۔