مارگلہ پیر سوہاوہ منال مکھنیال تا دامن کھیتر ایک سفری بلاگ
آج آپ سے اپنے چند سال پہلے کے ایک روڈ ٹرپ کی یاد تازہ کرتے ہیں جو کیا تو کسی اور مقصد کے لیے گیا تھا لیکن اس سے مجھے کچھ ملا یا نہیں ملا یہ تو ایک ثانوی بات ہے لیکن سیلانی کو وہ من چاہا ضرور مل گیا جس کی اسے شروع ہی سے تلاش رہی ہے جی ہاں آپ بالکل سمجھ گئے قدرتی مناظر سے بھرپور خوبصورت مقامات۔ جی تو بات ہو رہی ہے پیر سوہاوہ اور مارگلہ پلز کے مضافاتی علاقوں کی تو لگے ہاتھ بتاتا چلوں کہ تاریخی طور پر پیر سوہاوہ اسلام آباد سے قریباً 17 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جو کہ مارگلہ ہلز نیشنل پارک یا سلسلہ ہائے کوہ مارگلہ کا سب سے مشہور علاقہ ہے۔ لیکن وہ کیا کہتے ہیں کہ دادا پہلوان کے مقابلے میں پوتا پہلوان زیادہ مشہور ہو جاتا ہے بالکل ویسے ہی سطح سمندر سے 3000 فٹ سے زائد کی بلندی پر واقع منال گاؤں جو کہ اب ایک بڑا قصبہ بن چکا ہے اور خاص کر اپنے منال ریسٹورنٹ کی وجہ سے عالمی شہرت کا حامل ہے، پیر سوہاوہ کو شہرت میں پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ میں جب چار سال پہلے چھٹی پر گیا تو بھتیجے طاہر نے جس نے پیر سوہاوہ کے مضافات میں اپنا کلینک کھولا ہوا تھا نے کہا تیار رہیں آپ کے لیے پیر سوہاوہ کے مضافات میں جگہ دیکھ رکھی ہے، آپ کو پسند آئے تو سودا کر لیں گے۔ اسلام آباد، مارگلہ ہلز اور پیر سوہاوہ کے ذکر نے بے چین کر دیا کیونکہ میں کالج دور سے ہی یہاں آتا جاتا رہا تھا اس لیے مجھے یہاں کے سب علاقوں کے بارے میں اچھا خاصہ پتہ تھا۔ دو تین دن فوتگیاں بھگتا کر ہفتے کے دن طاہر کو کار کا تیل پانی چیک کرنے کا کہہ کر تیاری پکڑ لی۔ صبح ساڑھے نو بجے پشاور روڈ سے ہو کر گولڑہ موڑ سے گولڑہ روڈ پر مڑے اور پھر بذریعہ کشمیر ہائی وے موجودہ سری نگر ہائی وے پر سفر کرتے ہوئے زیرو پوائنٹ جا پہنچے۔ زیرو پوائنٹ پہنچ کر فیصل ایونیو پر جا مڑے اور فیصل مسجد کے پڑوس سے پیر سوہاوہ روڈ پر جا نکلے۔طاہر کی کار کہیں کہیں ہانپنے لگتی کیونکہ کہیں کہیں چڑھائی بہت ہی مشکل لگ رہی تھی۔ خیر جیسے تیسے کر کے دامن کوہ کو دور سے سلامی کرتے ہوئے بالآخر اللہ اللہ کر کے اوپر چوٹی پر پہنچ ہی گئے۔ منال جو اب ایک کافی بڑے قصبے کا روپ دھار چکا ہے، اس کی کنکریٹ زدہ خوبصورتی کو نظر انداز کرتے ہوئے اس سے آگے کے قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے منال کو کراس کیا۔جاتے وقت دائیں جانب نیچے اسلام آباد شہر چمکتی دھوپ میں نظارے دکھا رہا تھا، تو اس سے آگے دھویں اور دھند میں لپٹا راولپنڈی شہر قدرے اداس اداس نظر آ رہا تھا۔ سامنے دور تک مری کی پہاڑیوں کے بیچوں بیچ کشمیر کے طرف کے فلک بوس برف پوش پہاڑ سر اٹھائے دعوتِ نطارہ دے رہے تھے۔ نیچے قدموں تلے مارگلہ ہلز نیشنل پارک اپنی ہریالی کے جوہر دکھا رہا تھا، بائیں جانب نیچے ہری پور کی وادیاں رونق افروز ہو رہی تھیں۔ اوپر جا کر نظارہ دیکھنے والا تھا، آگے دائیں جانب لوہی دندی کی چوٹی، بروٹی ٹاپ و آبشار، ٹلہ گرانی، ٹلہ چرونی یہاں کی مشہور پہاڑی چوٹیاں دیکھنے کو ملیں۔ ٹلہ گرانی، پیر سہاوہ کے مضافات میں سطح سمندر سے 1181 میٹر / 3874 فٹ بلند سلسلۂ کوہ کی ایک مشہور چوٹی ہے۔ ٹلہ چرونی یہاں کی ایک اور بلند ترین چوٹی ہے جو کہ سطح سمندر سے 1000 میٹر/3300 فٹ بلند بتائی جاتی ہے۔ منال سے قدرے آگے جا کر دائیں جانب مارگلہ کی پہاڑی سلسلے کی ایک اور چوٹی واقع ہے جسے لوہی دندی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہیں ایک غار میں صوفی بزرگ حضرت شاہ عبدالطیف المعروف بری امام کی چلہ گاہ واقع ہے۔ جن کی تبلیغ اور حسن سلوک سے چور پور کہلانے والی بدنام زمانہ جگہ نور پور شاہاں کہلائی جہاں آج جناب شاہ عبدالطیف بری امام سرکار کا مزار اقدس واقع ہے۔ مارگلہ سلسلے کی پہاڑیوں میں واقع بروٹی ٹاپ سے نیچے بہتی آبشار انتہائی خوب صورت اور سکون پرور جگہ ہے۔ مارگلہ پہاڑیاں یا سلسلہ ہائے کوہ مارگلہ اسلام آباد، پاکستان کے شمال میں کوہ ہمالیہ کے سلسلے میں قریب ترین واقع ہونے کی وجہ سے یہاں بہت آسانی سے پہنچا جا سکتا ہے۔ مارگلہ نیشنل پارک کا علاقہ 12,605 ہیکٹر رقبے پر مشتمل ہے جس میں اسلام آباد کے علاوہ مری، ہری پور، ایبٹ آباد کے پہاڑی سلسلے شامل ہیں جہاں ہر کلومیٹر بعد ایک سے ایک مقام کہتا نظر آتا ہے کو مسافر ٹھہر دم تو لے لے، ہم بھی دیکھنے کے لائق مقام ہیں۔ الغرض مارگلہ ہلز کے دونوں جانب بہت سی پہاڑی چوٹیاں، قدرتی آبشاریں، چشمے اور وادیوں ہیں جو دیکھنے کے لائق ہیں۔ سرما میں جب درجۂ حرارت بہت کم ہو جاتا ہے تو یہاں بعض اوقات ہلکی اور کبھی کبھار کافی زیادہ برفباری بھی ہو جاتی ہے۔ اب ہم پیر سوہاوہ کے نشیبی علاقے میں داخل ہوئے اور سنگھڑا کے مقام پر اسلام آباد کے کیپیٹل ایریا کو پیچھے چھوڑتے ہوئے خیبر پختونخواہ کی حدود میں جا پہنچے۔ یہاں میدانی علاقہ قریباً نہ ہونے کے برابر ہے، زیادہ تر ڈھلوانی، عمودی چٹانی علاقہ ہے لیکن سبزے سے بھرپور ہے۔ مکھنیال ایک بہت خوبصورت مقام ہے، وہیں طاہر کے دوست بھی آن ملے، انہوں نے مکھنیال سے لے کر دامن کھیتر تک کے علاقے کے درمیان ڈنہ فیروز پور، کوہمل بالا، بانٹھ، گرین ہلز وغیرہ سب علاقے جہاں جہاں ان کی اطلاع کے مطابق جگہ مل سکتی تھی، دکھائی لیکن مجھے بالکل عمودی ڈھلوانی علاقہ جو کہ بلاشبہ دیکھنے میں تو جنت نظیر ہے لیکن بہت زیادہ غیر ہموار سطحِ زمین مجھے تعمیر کے معاملے میں مناسب نہیں لگا۔ کوہمل بالا سے ذرا پہلے کوہمل گلی میں ایک جگہ مجھے پسند آئی جو کہ انہی صاحب کی اپنی ملکیت تھی جو ہمیں دیگر جگہیں دکھا رہے تھے۔ ان سے اس جگہ بارے دریافت کیا تو پتہ چلا وہ اپنے چھوٹے بھائی کے لیے جگہ تیار کروا رہے ہیں جس کی آئندہ سال شادی طے ہے۔ قصہ مختصر جس مقصد کے لیے یہ سفر کیا تھا وہ تو کسی طور پورا نہ ہوا لیکن سیلانی کو دیکھنے کے لیے پہاڑ، چوٹیاں، چیڑھ کے درخت، ڈھلوانی سبزہ زار، چھوٹے بڑے آبشار اور قدرتی بہتے چشمے دیکھنے کو خوب ملے۔ اگر آپ کے پاس وقت ہو تو آپ فور بائی فور چیپ لے کر فیملی کے ساتھ براستہ اسلام آباد جائیں اور واپسی پر ہری پور، خان پور اور ٹیکسلا کے طرف سے ہوتے ہوئے آئیں۔ یقین مانیں اور کچھ ہو نہ ہو لیکن قدرت کے اتنے نزدیک جا کر آپ کی جسم و روح ضرور سیراب ہوں گی۔
وہ تو نہ مل سکا مجھے جس کی تلاش تھی
لیکن وہ مل گیا جو ہمیشہ سے من چاہا تھا