Pages

Tuesday 27 September 2022

مری ڈے ٹرپ اور دنبے کے گوشت کے ساتھ دھاندلی پروگرام

 مری ڈے ٹرپ اور دنبے کے گوشت کے ساتھ دھاندلی پروگرام

جاوید ماما ہمارے جگت ماما تھے، اللہ غریق رحمت کرے اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ گو وہ ہم سے عمر میں بڑے تھے لیکن وہ ہمارے ساتھ فٹبال بڑے شوق سے کھیلنے آیا کرتے تھے۔ حیدری بیوریجز کوکا کولا میں ملازمت کرتے تھے اور جب بھی کام سے جلدی آتے تو فٹبال کھیلنے گراؤنڈ میں پہنچ جایا کرتے تھے۔ بھاگ دوڑ کم کیا کرتے تھے لیکن ان کی بدنام زمانہ ٹو والی زوردار فٹبال کک بڑی مشہور تھی، خاص کر جب کوئی کھیل میں انہیں تنگ کرتا اس کے نزدیک جا کر فٹبال کو اتنے زور سے ٹو کک سے ضرب لگاتے تھے کہ اس کے ہوش ٹھکانے آ جاتے تھے۔ جب کبھی کلب یا دوستوں کے گروپ کا کوئی ٹرپ جاتا تو ماما جی ہمارے ساتھ شامل ہوتے اور ٹرپ کے دوران ککنگ کے کام میں دل جمعی سے حصہ لیتے تھے، ان کی ککنگ کا انداز آج کل کے نثار چرسی تکہ اور نثار چرسی کڑھائی سے ملتا جلتا تھا، اس کا اندازہ ہمیں اس وقت ہوا جب یہ شروع شروع میں ٹرپ پہ جاتے تو وہ شرارتاً ایک دو کر کے ٹماٹر پھینکا کرتے تھے تاکہ زیادہ سے زیادہ ٹماٹر پڑیں تاکہ کھانے میں اچھا ذائقہ آئے۔ جب کبھی ٹرپ کے لیے سودا سلف لینا ہوتا تو ان کی کوشش ہوا کرتی تھی ٹماٹر زیادہ سے زیادہ لیں۔ جب میں نے ان کا انٹرسٹ دیکھا تو ان کو مین ککنگ ٹیم میں شامل کر لیا، اس کے بعد تو وہ جب تک زندہ رہے، میرے، معشوق اور مصر کے ساتھ چیف شیف کا کام کرتے رہے۔ مری ٹرپ لے جانا ہو تو اس کے لیے باقاعدہ چھٹی لے لیا کرتے تھے۔ ہمارا کھانا پکاتے، فیکٹری سے ارزاں نرکوں پر کوک اور سپرائیٹ لا دیتے، ٹرپ پہ روٹیاں لینے جانا ہو تو وہ سب سے آگے ہوتے تھے۔ جن دنوں کی میں بات چھیڑنے جا رہا ہوں ان دنوں پریکٹس معطل تھی کیونکہ ہم سب جشن عید میلادالنبیﷺ کے جلوس کے سلسلے میں انجمن نوجوانانِ اللہ آباد کے بینر تلے انتظامات مصروف تھے، جیسے ہی فارغ ہوئے تو ماما کہنے لگے؛ یار گھر کا پکا کھا کھا کر منہ کا ڈیزائن بھی گھر کے دیگچے جیسا ہو گیا ہے، مڑا کوئی ٹرپ پلان کرو۔ سب دوست احباب سے بات کی تو بیٹھے بٹھائے پروگرام بن گیا کہ چلو چلو مری چلو۔

Sunday 25 September 2022

مری گیہل کوہاٹی کا ٹرپ اور وہاں ٹھکانہ بنانے کا ادھورہ خواب

 مری گیہل کوہاٹی کا ٹرپ اور وہاں ٹھکانہ بنانے کا ادھورہ خواب

پانچ سال پہلے پاکستان جانا ہوا، حسب عادت اس بار بھی سخت گرمیوں کا موسم منتخب کیا، گرمی میں ایک تو دن بڑے اور سفر کے لیے نہایت موزوں سیزن ہوتا ہے۔ شروع کے چند دن تو حسب سابق فوتگیاں بھگتاتے گزر گئی، گھر میں سب کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کے بہانے ایک مشترکہ ختم کا اہتمام کیا جس کا مقصد دنیا سے چلے جانے والوں کے لیے دعا و ختم برائے ایصال ثواب اور زندہ افراد کو میل ملاپ کا موقع فراہم کرنا تھا تاکہ کوئی گلہ یا شکوہ شکایت ہو تو اسے بھی دور کیا جا سکے۔ ان سب سے فارغ ہوئے تو چھوٹا بھائی شعیب کہنے لگا؛ بھائی تیار رہئیے گا آپ کو اس بار مری گیہل کوہاٹی کے علاقے دکھانے لے جانا ہے جہاں اپنی ایک جاننے والی فیملی کی جگہ ہے وہ بھی دیکھ لیں گے، اگر پسند آئی تو گھر کے لیے جگہ مل جائے گی۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں، میں نے کہا میں تو ایک گھنٹے کے نوٹس پر تیار ہو جاؤں گا۔ جس دن جانا تھا اس سے ایک دن پہلے کار کا تیل پانی چیک کر کے، ٹریول بیگ میں ضروری اشیاء رکھ کر تیاری پکڑ لی اور بھائی کے انتظار میں ابا جی کے پاس بیٹھ کر گپ شپ لگانے لگا۔ شام کو شعیب آیا تو پروگرام یہ طے ہوا کہ کشمیر ہائی وے(سری نگر ہائی وے) سے ہوتے جائیں گے۔ رات کو جلدی سو گئے، صبح اٹھ کر ابا جی کے ساتھ ناشتہ کیا اور کار میں دونوں بھائی پشاور روڈ، گولڑہ روڈ اور پھر کشمیر ہائی وے(سری نگر ہائی وے) سے ہوتے بھارہ کہو کی طرف چل پڑے۔ گو کہ گرمی کا موسم تھا لیکن صبح کے وقت اسلام آباد میں خوشگوار ہوائیں چل رہی تھیں جس سے گرمی کا احساس نہیں ہو رہا تھا۔ زیرو پوائنٹ سے بائیں جانب پیر سوہاوہ سے ہوائی دعا سلام کیا، دائیں جانب شکرپڑیاں پاکستان مونومنٹ پہ لوگ اکٹھے ہونا شروع ہو گئے تھے، آگے گلاب و یاسمین گارڈنز بھی اپنے جوبن پر دکھائی دے رہا تھا۔ سرینا ہوٹل کے پاس سے گزرتے ہوئے ایک نظر راول لیک ویو پارک پر ڈالی تو یوں لگا شاید لوگ ہم سے بھی پہلے سیر کو نکل پڑے ہیں، وہاں کافی رش دکھائی دے رہا تھا۔ مل پور بھی اب کافی پھیل چکا ہے، بھارہ کہو میں رک کر کار کا ٹینک فل کروا لیا، بھارہ کہو ماشاءاللہ اب اپنی جگہ ایک الگ شہر بن چکا تھا، اب دن کافی نکل آیا تھا اس لیے سیر کرنے والوں کا رش بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ سترہ میل سے اللہ کا نام لے کر مری ایکسپریس وے پر دوڑا دئیے گھوڑے ہم نے۔ ہموار اور چوڑی چکلی ایکسپریس وے پہ گاڑی تیز رفتاری سے بھاگی چلی جا رہی تھی۔ پھل گراں ٹول پلازہ پہ جرمانہ ادا کر کے ہم ایک بار پھر چل پڑے، پھل گراں سے آگے شہر کہ گہما گہمی کم ہو گئی تھی۔

Friday 23 September 2022

بارل وادئ سدھنوتی کا ایک شادی پر مشتمل سفر نامہ پر مبنی بلاگ

بارل وادئ سدھنوتی کا ایک شادی پر مشتمل سفر نامہ پر مبنی بلاگ

آج بھائی کے ساتھ وڈیو کال پہ گپ شپ ہو رہی تھی تو ابا جی بھی بیچ میں آ گئے، بہت دنوں بعد ابا جی سے کچھ باتیں ہوئیں، عموماً وہ لمبی بات نہیں کرتے ہیں۔ میں اس وقت وڈیو کال پہ بھی تھا اور وقفے وفقے سے سفری بلاگ کی نوک پلک بھی درست کر رہا تھا۔  مجھ سے پوچھنے لگے کہ کیا کر رہے ہو؟ جب بتایا کہ کشمیری سفروں کی یادداشت لکھ رہا ہوں۔ یہ سنا تو ہنسنے لگے اور کہا آخر بیٹے کس ماں کے ہوں، وہ جنت مکانی مرتی مر گئی لیکن مرنے سے چند دن پہلے بھی ضد کر کے کشمیر چلی گئی تھی، جب وہاں کا سفر کر کے واپس آئی تو ایسی بیمار پڑ گئی کہ پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے واپس نہ آنے کے لیے آخری سفر پر روانہ ہو گئی۔ یہ کہہ کر ابا جی بھی اداس ہو گئے اور مزید کوئی بات کیے بغیر اپنے کمرے میں چلے گئے۔ کہتے ہیں جب اداسی چھا جائے تو کچھ کرنے کا دل نہیں کرتا۔ بعینہ ہم بھائیوں نے بھی بات ختم کر دی اور میں چپ بیٹھ کر بس ماں جی کے بارے میں سوچتا رہا۔ اچانک دل میں آئی کہ ایک سفر جو ماں جی نے کیا، جس مقصد کے لیے کیا، پھر دنیا سے چلی گئیں تو جانے سے پہلے اشارے سے اس معاملے کو نبٹانے کا بھی حکم دیا، کیوں نہ اس بارے میں بھی لکھا جائے۔ چلیں شروع کرتے ہیں وہ داستاں جس میں اداسی بھی ہے، ماں کی یاد بھی اور ان کے شروع کیے گئے نیک عمل کی تکمیل بھی اس میں شامل ہے۔ ہمارے ماموں کے بڑے بیٹے کی شادی ہوئی تو موصوف اور ان کی بیگم ماں باپ کو بھول کر اپنی الگ دنیا بسا کر ماں باپ کو اکیلا چھوڑ گئے۔ ماں جی جب بھی گاؤں جاتیں تو بھائی بھاوج کو بڑھاپے میں گھر کے سارے کام کرتے دیکھتیں تو کڑہا کرتی تھیں۔ چھوٹے کزن شاہد کا کوئی اچھا کام یا کاروبار نہ تھا، کبھی راج گیری کا کام کر لیا، کبھی مزدوری کر لی اور اگر کوئی کام نہ ہوا تو جانوروں کی دیکھ بھال میں خود کو مصروف رکھنے لگا۔ ماں جی نے بہت کوشش کی کہ اس کا کہیں رشتہ طے ہو جائے تاکہ جلداز جلد گھر کا دھیان رکھنے والی آ جائے لیکن گھر کے حالات اور گھر والوں کے مالی حالات ایسے تھے کہ بیل منڈے نہیں چڑھ رہی تھی۔ ایک بار ماں جی بلاں بارل میں اپنے خالہ زاد بابو عزیز کے ہاں گئیں اور انہیں شاہد کے لیے بابو جی کی نواسی پسند آ گئی، بابو جی سے بات کی تو انہوں نے کہا؛ بو جی آپ جب چاہیں دو کپڑوں میں اسے بیاہ کر لے جائیں، آج سے سلمیٰ آپ کے کہنے پر شاہد کے نام کر دی۔

نکلے تھے گھومنے پھرنے ایک سفری بلاگ کا دوسرا حصہ

نکلے تھے گھومنے پھرنے ایک سفری بلاگ کا دوسرا حصہ

سیانوں نے سچ ہی کہا ہے کہ کبھی کبھار پاؤں کا چکر دل و دماغ کے بنائے گئے پروگرام کا تیا پانچہ کر کے رکھ دیتا ہے اور پھر ایسا ہی ہوا اور ہمارے بنے بنائے پروگرام کو بھائی جان کے فون کے بعد بدلنا پڑا اور ہم جنجور کی بجائے گیہہ جا پہنچے۔ جس کی داستان آوارہ گرداں آپ پہلے حصے میں پڑھ چکے ہوں گے۔ گزشتہ دن کے مشقت آمیز سفر نے ایسا تھکایا کہ رات کو ایسی نیند آئی کہ جسے دیکھ کر گھوڑے بیچ کر سونا والا محاورہ ایجاد کیا گیا ہو گا، ایسی مست نیند کہ نہ رضائی اوپر دھرنا یاد رہی اور نہ ہی ڈانڈا اپنے ڈنڈے چلا سکا۔ سحری سے پہلے آنکھ کھلی تو بستر سے نکل کر باہر برآمدے میں ڈانڈے کے نظارے دیکھنے لگا، ہوائیں اتنی تیز تھیں کہ چیڑھ کے قد آور درخت یوں جھک جھک جاتے تھے کہ لگتا تھا ابھی ٹوٹ کر گر جائیں گے۔ اس وقت سردی اتنی تھی کہ جسم کانپنے لگ گیا بادل نخواستہ بھاگ کر رضائی اوڑھ کر بستر میں براجمان ہو گئے اور ڈانڈے کا میوزک سنتے سنتے پتہ نہیں چلا کہ کب پھر آنکھ لگ گئی۔ صبح بے جی کی بسم اللہ کی آواز سن کر آنکھ کھلی تو دیکھا دن نکلنے کے آثار نمودار ہو چلے تھے۔ سوچا چشمے کی طرف جا کر نہا کر کسلمندی دور کی جائے مگر ہوائیں اتنی یخ بستہ تھیں کہ ارادہ ملتوی کرنا پڑا۔ کہاں کل دن کو پسینے میں سر تا پا شرابور تھے کہاں اب پانی سے بھاگتے پھر رہے تھے۔ جناب یہ ہے کشمیر جہاں ہر چند گھنٹوں کے وقفے کے بعد موسم رنگ بدلتا ہے، دن کو سورج نکلے تو پہاڑ تپ کر بھاپ چھوڑنے لگتے ہیں، بادل چھا جائیں تو ٹھنڈ لگنے لگ جاتی ہے چاہے جولائی اگست کا مہینہ ہی کیوں نہ ہو۔ اور اگر قسمت سے بارش ہو جائے تو یقین مانیں باہر بیٹھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ہواؤں کا زور ٹوٹنے لگ تھا، اب قدرے ہلکی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چلنا شروع ہو گئی تھیں۔ میں بھی اٹھا منہ ہاتھ دھو کر سیدھا چولہے کے پاس جائے امان تلاش کر کے بیٹھ گیا، وہیں پاس بیٹھے بیٹھے ہی ناشتہ کیا، بہت دنوں بعد مکئی کی روٹیاں کھانے کو ملیں اور وہ بھی مکھن سے تر بتر، پھر ناشتے کا مزہ کیوں نہ آتا۔ خالص دیسی ناشتے کے بعد جسم میں گرمائش پیدا ہوئی تو کٹھے پر کھڑے ہو کر نیچے گیہہ وادی کا نظارہ کرنے لگ گیا۔ سرسبز و شاداب گیہہ وادی سورج کی کرنوں میں جگمگا رہی تھی، انواع و اقسام کے درخت ہوا میں جھوم رہے تھے۔ گرمی ہونے کے باوجود بھی یہاں سدابہار پھولوں کے نظارے بھی دیکھنے کو مل رہے تھے۔

Thursday 22 September 2022

نکلے تھے گھومنے پھرنے ایک سفری بلاگ کا پہلا حصہ

نکلے تھے گھومنے پھرنے ایک سفری بلاگ کا پہلا حصہ

سیانے کہتے ہیں کہ کبھی کبھار پاؤں کا چکر دل و دماغ کے بنائے گئے پروگرام کا تیا پانچہ کر کے رکھ دیتا ہے۔ ہوا یوں کہ بھائی تصدق ابا جی کی ہدایت پر ایک تعمیراتی کام کے سلسلے میں ہمارے ہاں پنڈی کینٹ آئے ہوئے تھے۔ پراجیکٹ یہ تھا پہے سے بنے گھر کے اوپر گلی کی جانب دو کمرے اور دو عدد ٹوائیلٹس بنانے تھے۔ عام دنوں میں بھائی تصدق مستری میں مزدور ہوا کرتے تھے، چونکہ اپنا کام تھا اس لیے جب بھی وقت ملتا، دو چار ردے لگا لیتے کیونکہ سخت گرمیاں تھیں اور زیادہ دیر کام کرنا جان جوکھوں کا کام تھا۔ خیر دن رات ایک کر کے آخر کار چھت کا لینٹر ڈلنے کا وقت آ ہی گیا۔ جب بھی گھر میں کوئی کام تعمیرات کا کام ہوتا ہے تو سوائے چھت کے میں نے کبھی مزدور نہیں لگائے، چھت ڈالنے وقت بھی زیادہ تر دوست ہی ساتھ دینے آ جاتے تھے، ہاں یہ کہ چھٹ ڈالنے والے دن کنکریٹ مکسر اور ایک کنکریٹ سپیشلسٹ مزدور ضرور رکھا جاتا تھا۔ جس دن چھت ڈلی گاؤں میں کوئی فوتگی ہو گئی تو ماں جی حسبِ معمول ننھیالی گاؤں چلی گئیں۔ جب چھت کا لینٹر ڈل گیا تو کھانا وانا کھا کر ہم دو مسیروں نے پروگرام بنایا کہ کافی دنوں سے گویا بندھے ہوئے ہیں چلو کہیں ہوا بدل آئیں، پھر ہمارا ارادہ بھی جنجور جانے کا بن گیا کہ پہلے تو فوتگی اٹینڈ کرتے جائیں گے، بعد میں سوچیں گے کہ کیا کرنا ہے۔ ویسے تو ابا جی بھی ابھی ماشاءاللہ ہم جوانوں سے بہت اچھی صحت والے ہیں لیکن اپنی عدم موجودگی میں دو عدد چھوٹے بھائیوں کی ڈیوٹی لگا دی کہ کل سے ہر گھنٹے بعد چھت کی ترائی کا کام اب تم دونوں کے ذمے ہے۔ نہا دھو کر دونوں خالہ زاد ننھیال جانے کے لیے پنڈی سے چل پڑے، کہوٹہ پہنچے تو موبائل پہ بڑے بھائی جان کی کال آ گئی کہ ان کی بیگم/ہماری بھابھی کے پھوپھی زاد کی شادی طے تھی، وہاں جانا تھا، اب امی جی جنجور چلی گئی ہیں، تم کہوٹہ نکل گئے ہو، میری ایمرجنسی ڈیوٹی لگ گئی ہے۔ بارات تحریڑ نزد ہولاڑ کسی گاؤں میں جائے گی، اب تم بھی نکل گئے ہو تو بھابھی کے ساتھ کون جائے گا، جانے کا مسئلہ نہیں چکلالہ ائیرپورٹ کے پاس شادی والے گھرچھوڑ آؤں گا، لیکن واپسی کا مسئلہ ہو گا۔ میں نے کہا کہ میں تو کہوٹہ پہنچ چکا ہوں، آپ کل صبح بھابھی کو شادی والے گھر تک پہنچا دیں، وہاں ان کے اور بہن بھائی بھی آئے ہوں گے، انہیں اکیلے پن کا احساس نہیں ہو گا۔

Wednesday 21 September 2022

کوہاٹ میں شادی پر آتشبازی ہلہ گلہ ناچ گانا اور ولیمے کا بلاگ

کوہاٹ میں شادی پر آتشبازی ہلہ گلہ ناچ گانا اور ولیمے کا بلاگ

اسلام آباد پشاور موڑ، بھینسوں کی تلاش، انہیں منزل تک کوہاٹ پہنچانے کا بلاگ تو آپ پڑھ چکے ہوں گے، آج اس بلاگ کا اگلا حصہ شروع کرتے ہیں۔ رات کا کھانے سے فارغ ہوئے تو دوست نے ایک الماری کھول کر ہمیں بھی توپ و تفنگ دئیے تاکہ ہم بھی گاؤں والوں ڈز ڈز کا جواب دے کر رانجھا راضی کر لیں، میزبانوں کی خوشی لے لیے سبھی نے اپنی اپنی پسند کا ہتھیار اٹھایا، لوڈ کیا اور ڈز ڈز شروع کر دی، اس شغل سے فارغ ہونے کے بعد ہم نے احترام سے اسلحہ میزبانوں کے حوالے کیا اور اپنی ایک عدد سوزوکی کے پاس پہنچ گئے جو کہ آتش بازی کے سامان سے لدی ہوئی تھی، سب دوستوں نے اپنی اپنی پسند کا مال نکالا اور اوپر چھت پر جا کر سیٹ اپ کرنے لگے۔ پروگرام یہ تھا کہ چند گروپ بنیں گے، ایک گروپ پہلے شرلیاں چلائے گا اور پھر دوسرا انار بموں سے دھماکوں کی شروعات کرے گا اور تیسرا گروپ آخر میں راکٹ نما ہوائیوں کا مظاہرہ کرلے گا۔ راکٹ نما ہوائیوں کے الگ الگ سو سو کے دس سیٹ تیار کیے گئے۔ پہلے باہر کھلے میدان میں شرلیاں چلا کر ماحول بنایا گیا، جنہیں دیکھ کر پٹھانوں نے ہمارا ٹھٹھہ اڑایا، ابھی وہ ہنس رہے تھے کہ ہم نے انار بموں کو آگ دکھا دی، ان کی آواز اس قدر زوردار تھی کہ ہمیں باقاعدہ بلی ٹنگ کی طرف سے پولیس سائرن کی آواز سنائی دینے لگی، شاید وہ یہ سمجھے ہوں گے کہ واقعی کوئی دھماکے ہوئے ہیں۔ خیر انار نما بمو کے دھماکوں ایک فائدہ ضرور ہوا کہ بموں نے ہمارا مذاق اڑانے والے پٹھان بھائیوں کے کانوں کی میل ضرور نکال کر رکھ دی تھی۔ اب وہ ہمارا ٹھٹھہ نہیں اڑا رہے تھے بلکہ دلچسپی سے دیکھ رہے تھے کہ آگے کیا ہونے جا رہا ہے۔ ہم نے سوچا کہ اس سے پہلے کہ پولیس پہنچے اور ہوائی آتش بازی والا اگلا پروگرام بیچ میں رہ جائے، سب دوستوں نے چھت پر جا کر ایک ہی بار سارے راکٹ نما ہوائیوں کا آگ دکھانا شروع کر دی۔ پٹھان بھائیوں نے جب ہوائیوں کا رنگین اور سنگین مظاہرہ دیکھا تو ناچنے لگے، یہ ان کے لیے شاید نیا تجربہ تھا۔ ان کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے جو مال بچ گیا تھا اسے بھی آگ دکھا دی تاکہ وہ مزید خوش ہو جائیں اور اگر پولیس آپ بھی جاتی ہے تو اس کو ہمارے خلاف کوئی ثبوت نہ ملے۔ سب سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ لالہ ہماری حویلی میں آ گئے، وہ آتش بازی کے مظاہرے سے بڑے خوش نظر آتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ گاؤں والوں نے آتش بازی کو بہت پسند کیا ہے۔ اسلحہ سے فائرنگ ان کے لیے نئی بات نہیں لیکن آتش بازی ان کے لیے نئی اور دلچسپ بات ہے۔

Tuesday 20 September 2022

پھڑی بھینسوں کی تلاش اور انہیں منزل مقصود کوہاٹ پہنچانا

 پھڑی بھینسوں کی تلاش اور انہیں منزل مقصود کوہاٹ پہنچانا

دوست کے اڈے یا مرکز جو بھی کہہ لیں سے لے کر اس کی شادی اور شادی کے لیے بھینسوں کی تلاش تک کا واقعہ تو آپ کی خدمت میں پیش کر چکا ہوں۔ چونکہ ان کی تلاش کا کام راجے اجمل کے بھائی کے ذمے تھا لیکن انہیں سہولت سے منزل تک پہنچانے کے لیے میری چند دوستوں کے ساتھ ڈیوٹی کیا لگی گویا ہم اب ایک طرح سے پابند ہو گئے تھے کہ کسی بھی وقت آ جاؤ یا تیار ہو جاؤ کی کال آ جائے گی اور ہمیں مجوں کے ہمراہ سفر کرنا پڑے گا۔ گویا لالے کی ٹینشن تو دور ہو گئی لیکن ہماری ٹینشن کا دور شروع ہو چکا تھا۔ یہ اچھی بات تھی کہ اس وقت پاکستان میں نیا نیا موبائل فون آیا تھا، اس لیے موبائل سے رابطے میں آسانی رہتی تھی، لہٰذا ہم چند دوست کھیل کے میدان میں بھی ہوں تو آن کال رہتے تھے۔ شایدان دنوں مارکیٹ میں ایسی بھینسوں کی کمی تھی کہ شادی کا دن بالکل سر پر آ چکا تھا لیکن ہنوز بھینس دور است کے آثار ہی نظر آ رہے تھے، ایک دن بعد شادی تھی اور ہم کوہاٹ میں شادی میں شریک ہونے کی بجائے پنڈی کینٹ میں مجوں کا انتظار کر رہے تھے۔ اس دن فٹبال پریکٹس کینسل تھی، کپڑوں کا بیگ، شیونگ کا سامان، صابن وغیرہ بیگ میں رکھے گویا فوجیوں کی طرح تیار بیٹھے تھے۔ آخر کار تین بجے کال آئی کہ گوہڑہ سیداں سے بھینسوں سے لدے تین ٹرک ایک گنٹہ پہلے چل پڑے ہیں، آپ لوگ پیرودھائی موڑ پہنچ جائیں، ٹرک وہاں سے آپ کو پک کر لیں گے۔ گوہڑہ سیداں جی ٹی روڈ پر سواں کیمپ اور روات کے درمیان جہاں آج کل گیگا مال واقع ہے وہاں سے پنڈی کی طرف ایک ڈیڑھ فرلانگ کے فاصلے پر دائیں جانب واقع ہے، اب تو یہ گاؤں بحریہ اور ڈیفنس ہاؤسنگ کی مختلف فیزز کی نذر ہو رہا ہے۔ یہ خبر سن کر ہم نے بھی شکر ادا کیا کہ راجے کی ڈھوک گوہڑہ سیداں کا گیڑا نہیں لگانا پڑا، بیگ اٹھایا، سب دوستوں کو اکٹھا کیا پھر ہم بھاگم بھاگ پیر ودھائی موڑ جا پہنچے، اس وقت موجودہ فلائی اوور اور انڈر پاس نہیں بنے تھے۔ ہم سب دوست ڈائیوو کے پرانے اڈے پر جا کر رک گئے، آدھے گھنٹے بعد سرفراز تین ٹرکوں کے ساتھ پہنچ گیا، ہر ٹرک پر آٹھ آٹھ بھینسیں لادی گئی تھیں، اب اس میں چھ عدد دو جنگے مسافر بھی دو دو فی ٹرک کے حساب سے سوار ہو گئے تاکہ اگر کوئی بھینس شرارت کرے تو اسے سنبھالنے کا کام کیا جا سکے۔

Monday 19 September 2022

میری خفیہ انکوائری دوست کی میں شادی اور بھینسوں کی تلاش

 میری خفیہ انکوائری، دوست کی میں شادی اور بھینسوں کی تلاش

ہمارے کلب کے صدر فیاض ملک اس سال حج کر کے آئے ہیں، انہیں مبارکبار دی تو باتوں باتوں میں ہی ماضی کی ایک دوست کی شادی کا ذکر آ گیا جو کوہاٹ کے آفریدی پٹھان ہیں لیکن گزشتہ تین نسلوں سے ویسٹرج میں ہی رہتے ہیں۔ ہمارے اس دوست کی شادی کے سلسلے میں ہم دو تین دن کوہاٹ رہے تھے۔ شروع کرتے ہیں کہ دوست کے بھائی نے میری انکوائری کیسی کی اور دوست کی اچانک طے شدہ شادی میں کیسے جانا ہوا اور وہاں کیا کیا کچھ ہوا۔ میرے دوست کی فیملی کا پورے ملک میں ٹرانسپورٹ کا کاروبار ہے، یہ لوگ پورے ملک میں ٹرکوں اور ٹرالرز کے ذریعے مال منگوانے اور بھجوانے کا کام کرتے ہیں۔ ان کا ایک کاروباری مرکز اسلام آباد کے پشاور موڑ ایریا تھا جس کا ایک خاص مقصد عام سامان باربرداری کے ساتھ ساتھ سفارتی حلقوں کو بیئر وغیرہ سپلائی کرنا بھی شامل تھا۔ میرے دوست کا اس ایریا کے ڈی ایس پی سے جھگڑا ہوا تو اسے اپنی جگہ کسی انگلش سپیکنگ بندے کی ضرورت پڑی جو کہ یہ مال سپلائی کر سکے اور اس کے ساتھ ساتھ ایسے حساس مال کا پیپر ورک اپ ٹو ڈیٹ رکھ سکے۔ ایک بات بتاتا چلوں کہ میں نے یہ کام صرف اور صرف دوست کی مدد کے لیے کیا، اس کام کا کوئی معاوضہ بھی نہیں لیا۔ جن دنوں میں وہاں رہا  میں نے محسوس کیا کہ دوست کے بڑے بھائی پشاور موڑ مرکز کبھی کبھی آ کر میری نگرانی کیا کرتے تھے،ان کی تکنی کبھی کبھی مجھے کچھ عجیب لگا کرتی تھی، کہ یہ مجھ میں کیا ٹٹولتے رہے ہیں، پھر ذہن میں آیا کہ شاید میری نیک نیتی یا ممکنہ بد نیتی جانچ رہے ہیں۔ میں سر جھٹک کر اپنا کام کرتا رہا کہ چلیں جانچ لیں میں کون سا ان کا ملازم ہوں، کون سا غبن کر رہا ہوں پھر اوپر سے اس کام کا معاوضہ بھی نہیں لیتا تو ڈر کاہے کا۔ ہمارا ایک منشی تھا، اس سے میرے بارے ٹوہ بھی لی جاتی رہی، منشی کو میرا سب پتہ تھا کہ صبح چیک کر کے کیش لیا، شام کو اسے چیک کر کے کیش کا حساب دیا، رجسٹر میں باقاعدہ اندراج کیا اور پھر واپسی کی راہ لیا کرتا تھا۔ دوست کی بھائی جنہیں سبھی لالہ کہتے تھے جب مجھے اچھی طرح جانچ چکے تو ایک دن میرے پاس آئے اور کہا؛ یار ٹرنک کال تو ملا دو، میں نے کہا؛ لالے لینڈ لائن کا زیرو بند ہے، ٹرنک کال ممکن نہیں ہے۔ لالہ بولا؛ کریڈل ٹیپنگ ٹیکنیک کا پتہ ہے؟ میں نے کہا؛ پتہ ہے، لیکن کروں گا نہیں، بولے کیوں؟ میں نے شیخ سعدی کا قول سنایا کہ؛ اگر بادشاہ باغ سے ایک سیب توڑے تو اس کے لشکری سار باغ اجاڑ دیتے ہیں۔ لالہ میرے منہ تکے جا رہا تھا، میں نے کہا؛ پیٹ میں حرام کا لقمہ جانے کی دیر ہے، بندے کو حرامی بنتے دیر نہیں لگتی۔ مجھے پتہ ہے میری یہاں چھپ چھپ کر چیکنگ کی جا رہی ہے، جب میں تنخواہ نہیں لیتا، چائے اور کھانا بھی اپنے پلے سے کھاتا ہوں، آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میں اگر یہاں ہوں تو صرف دوست کی مدد کے لیے ورنہ مجھے یہاں منشی گیری ٹائپ کام کرنے کی ضرورت نہیں۔ لالہ پہلے ہی ساری سن گن لے چکا تھا، میری باتیں سنیں تو میرے ساتھ ہاتھ ملایا اور کہنے لگا؛ پہلی بار کوئی اچھا بندہ ٹکرا ہے، شکر ہے میں نے ٹوہ ہی لی ہے کوئی برا بھلا نہیں کہا۔ میں نے کہا؛ ایک مشورہ دوں؟  اپنے بیٹے سے میرے بارے سب پتہ چلا لیجیے گا جو میرے کلب کا جونیر گول کیپر بھی ہے۔ گھر جا کر دونوں باپ بیٹے نے آپس میں بات چیت کی۔ بیٹے نے والد کو کہا آپ کی دوسروں سے سخت لہجے میں بات کرنے کی عادت ہے، شکر ہے آپ نے ایسا نہیں کیا ورنہ کپتان بھی آپ جیسا ہی ہے، وہ بھی کسی کا لحاظ نہیں کرتا۔ پھر میرے بارے میں اور میری ساری فیملی بیک گراؤنڈ بارے بتایا تو بیٹے سے کہنے لگا؛ اسے میرے پاس راولپنڈی یا کراچی ہونا چاہیے۔ لیکن جب میرے بارے پتہ چلا کہ میری انگلینڈ میں بات طے ہے اور  میں جلد ہی شادی کر کے باہر جانے والا ہوں تو بیٹے سے کہ؛ کاش مجھے ایسا محنتی، پڑھا لکھا اور کھرا بندہ پہلے مل جاتا تو میں کہیں کا کہیں ہوتا۔ چند دنوں بعد میرے دوست کا ڈی ایس پی سے تصفیہ ہو گیا اور وہ واپس اپنے کاروبار کو سنبھالنے کے لیے کام پر واپس آ گیا۔

Saturday 17 September 2022

مری بھوربن کا سفری بلاگ بذریعہ ایکسپریس وے و کشمیر ہائی وے

 مری بھوربن کا سفری بلاگ ایکسپریس وے و کشمیر ہائی وے

کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے جب ایک بار پاکستان جانا ہوا تو ہمارے المسلم فٹبال کلب کے صدر فیاض نے بتایا کہ کلب کے سابق فٹبالر اور حال کے مری بھوربن سے کونسلر نے اپنے کلب کے ساتھ میچ کھیلنے کی دعوت دی ہے۔ میں نے مشورہ دیا کہ ویک اینڈ پہ مری میں میچ تو کھیلا جا سکتا ہے لیکن مری کی ٹریفک کا بڑا مسئلہ ہو گا، اگر سوموار، منگل، بدھ کے دنوں میں میچ رکھ لیں تو زیادہ مناسب ہو گا۔ صرف ایک مسئلہ تھا کہ جو جو ورکنگ ڈیوٹی والے کھلاڑی تھے ان میں سے صرف آدھے ہی جا پا سکتے تھے، میرا مشورہ یہی تھا کہ ینگسٹرز کو کھلایا جائے کیونکہ ان دنوں سکول کالجز کی چھٹیاں تھیں اور وہ سب دن کو فارغ ہی ہوتے تھے۔ میں چاہتا تھا کہ صرف معدودے چند سینئر کھلاڑی ہی میچ کھیلیں، اس طرح ان کو ریسٹ بھی مل جاتا اور وہ اگلے ہفتے کے ڈویژنل ٹورنامنٹ کے لیے تازہ دم اور تیار ہوں گے، جو جو سینئر ساتھ جائیں گے ان میں سے بوقتِ ضرورت کسی کو کھلا لیں گے ورنہ باقی نوجوان لڑکوں کو چانس دیں گے۔ اکرام سے بات کی گئی اور بدھ کا دن ایک بجے میچ کا وقت طے کر لیا گیا۔ فیاض فیڈرل بورڈ میں بطور ڈائریکٹر تعینات ہے، اس نے پیڈ الاؤنس کے تحت محکمے کی ٹویوٹا ہائی ایس ہائر کر لی تھی، جس کا ڈرائیور غلام حسین اکثر ہمارے ساتھ بطور شامل باجہ ہوا آتا جاتا رہا کرتا ہے، دیسی مزاج غلام حسین جب ساتھ جایا کرتا ہے تو ڈارئیور کے ساتھ ساتھ ہمارے پارٹ ٹائم کک کردار بھی ادا کیا کرتا ہے۔ مقررہ دن پر صبح سویرے رفیق قصائی سے گوشت اور ارشد سے ٹماٹر پیاز اور پھل ساتھ میں لے لیے گئے۔ غلام حسین بمع گاڑی و پکوائی کے دیگچے وغیرہ کے ساتھ الہ آباد بازار میں پہنچا ہوا تھا، ساڑھے چھ فٹا لقمان آفریدی ایک عدد سوزوکی پک اپ کے ساتھ کھمبے کی طرح کھڑا ہم سب کا انتظار کر رہا تھا۔ لکڑی کے ٹال سے جلانے کی لکڑیاں لے کر سوزوکی پک اپ کی سیٹوں کے نیچے رکھ لی گئیں۔ زیادہ تر جوان لڑکے سوزوکی میں گھس گئے اور دیگچہ بطور میوزک ٹول ڈھول کے طور پر سائیڈوں پہ لگی سیٹوں کی درمیانی جگہ رکھ لیا گیا۔ ان کی سوزوکی پر قبضے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ٹویوٹا ہائی ایس میں ہماری موجودگی میں وہ یہ ہلہ گلہ نہیں کر سکتے تھے۔ دو تین شاپنگ بیگز اکٹھے کر کے گوشت کے ساتھ برف ڈال دی تاکہ گرمی کی وجہ سے خراب نہ ہو۔ پونے دس بجے سب جوان اور پرانے کھلاڑی دونوں گاڑیوں میں سوار ہو کر رینج روڈ ویسٹرج سے آئی جے پی روڈ کے ذریعے مری کلڈنہ بھوربن روڈ کے لیے نکل پڑے۔ پیرودھائی کے پاس تھوڑا رش تھا لیکن کھڑا نہیں ہونا پڑا، فیض آباد سے ہم اسلام آباد کی حدود میں داخل ہوئے لیک روڈ (مری روڈ) پہ جا ٹرن لیا، صبح سویرے کا اسلام آباد دیکھنے کے قابل ہوتا ہے کیونکہ ابھی ائیر پلوشن کم کم ہوتی ہے۔

Friday 16 September 2022

مواڑا کہوٹہ سے ہلاں، چھے چھن تا رمبلی تک کا سفر حصہ سوم

 مواڑا کہوٹہ سے ہلاں، چھے چھن تا رمبلی تک کا سفر حصہ سوم

مواڑا کہوٹہ سے براستہ آزاد پتن و ہلاں سے چھے چھن (اب سرکاری نام خان آباد) اور اس کے بعد چھے چھن تا رمبلی بابوٹ تک  کا سفری بلاگ تو آپ پڑھ لیا ہو گا اب آغاز کرتے ہیں داستان آوارگی، رمبلی اور بابوٹ۔ سہ پہر کے چِلّے دودھ اور رات کا دیسی ککڑ اور گجریلہ کھا کر آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ہم مست سوئے رہے ہوں گے۔ تو جناب ہم ضرور سوئے لیکن بس چند گھنٹوں کے لیے، رات ساڑھے دس گیارہ بجے سے صبح سویرے تک مسلسل چلنے والے رمبلی وادی کے بدنام زمانہ ڈانڈے نے ہمارے تراہ کڈ کر رکھ دئیے۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا تھا جیسے بوئنگ ٹرپل سیون کے دونوں انجن گھر کی دونوں اطراف میں فٹ کر دئیے گئے ہوں۔ میں نے بستر سے اٹھ کر کھڑکی کی جھری سے باہر دیکھا تو چاند کی روشنی میں چیڑ کے درخت ایسے لہرا رہے تھے جیسے ابھی کے ابھی ٹوٹ کر گر جائیں گے۔ خیر یہ جی ای 90 کی بجائے جی ای رمبلی کے قدرتی ہوائی انجن کی طاقت تھی جو  قریباً ہر روز آٹھ دس گھنٹے کے لیے چلتا ہے، ایسا کبھی کبھار ساون کے آخر یا بھادوں میں ہی ہوتا ہے کہ ڈانڈا نہ چلے۔ بستر میں گھس کر رضائی میں منہ گھسیڑ دیا تاکہ انجن کے شور سے پیچھا چھوٹ جائے مگر ایسا ہونا ممکن نہیں تھا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کیسا پاگل ہے اگست کی گرمیوں کے موسم میں رضائی میں سو رہا ہے، جناب آپ ان پہاڑی علاقے کے رات کے موسم سے واقف نہیں، رات کو ایسی تیز اور ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں کہ رضائی کے بغیر کمرے کے اندر بھی سونا ممکن نہیں ہوتا، رضائی کے بغیر یخ ٹھنڈی ہوائیں کلفی جما کر رکھ دیتی ہیں۔ کتنی بار ماموں کو کہا بھی کہ ونڈ مل لگا لیں ڈانڈا شریف فری کی بجلی پیدا کر دیا کرے گا، لیکن ماموں نے ہنس کر کہا پھر روز ونڈ مل کو کون ڈھونڈتا پھرے گا، ہوا اپنی طاقت سے سب کچھ اڑا لے جاتی ہے۔ یہاں میں نے وادی میں جو بھی مکان دیکھا وہ ایسی جگہ بنایا گیا ہے کہ اسے قدرتی طور پر دو تین اطراف سے ٹیلوں کی اوٹ نما حفاظتی دیوار میسر ہو۔ ویسے نانا قربان علی کی ہی ہمت ہے کہ سینکڑوں کنال رقبے کا بڑا حصہ کاشت کے قابل بنایا ہوا ہے، ساتھ میں پھل فروٹ کے کئی اقسام کے درخت اور دو تین جگہوں پر سبزی بھی کاشت کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اب اتنے دور نہ تو دکان ہے نہ کچھ اور بس گھر ہیں اور وہ بھی ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر ہیں، خوراک کا اس طرح سے بندوبست برٹش آرمی کے نانا قربان ہی کر سکتے ہیں۔ یہ کام تو آرمی ای ایم ای کور کے ماموں مظہر کی بس کی بھی بات نہیں۔ ہر مسلمان گاؤں کی طرح ایک مسجد بھی ہے جو نانا کے گھر سے کافی نیچے بالکل وادی کے سب سے نچلے حصے میں واقع ہے۔ صبح اٹھ کر ناشتے سے فارغ ہو کر ہم ماموں بھاجے بابوٹ کی جانب ہمارے رشتے کے ماموں کا ڈیمچہ دیکھنے چل پڑے۔

Thursday 15 September 2022

مواڑا کہوٹہ سے ہلاں، چھے چھن تا رمبلی تک کا سفر حصہ دوم

  مواڑا کہوٹہ سے ہلاں، چھے چھن تا رمبلی تک کا سفر حصہ دوم

مواڑا کہوٹہ سے چھے چھن (اب سرکاری نام خان آباد) سے براستہ آزاد پتن و ہلاں کا سفری بلاگ تو آپ پڑھ چکے ہوں گے اب آغاز کرتے ہیں چھے چھن اور چھے چھن سے آگے کی داستان آوارگی۔ چائے کے ساتھ ابلے انڈے کھا پی کر ایک آدھ گھنٹے کمر سیدھی کی، خالہ زاد ضیا ابھی اپنے بستر میں ہی دبکا ہوا تھا۔ میری تھکاوٹ دور ہو گئی تو میں کمرے سے باہر نکل کر ڈب پر کرسی ڈال کر بیٹھ گیا، یہاں اس علاقے میں ڈب نچلے گراؤنڈ لیول کی چھت کو کہتے ہیں جو کہ اوپر والے لیول کے لیے صحن کا کام دیتی ہے۔ ظاہر سی بات ہے پہاڑی علاقے میں ہموار زمین تو نہیں ہوتی اس لیے دو تین لیول پر تعمیرات کی جاتی ہیں، نچلے لیول پر عموماً جانوروں کا طبیلہ ہوتا ہے جو ڈھور ڈنگروں کے زیر استعمال ہونے کے ساتھ ساتھ جلانے والی اور عمارتی لکڑی اور اجناس کی سٹوریج کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ ڈب کی چھت پہ بیٹھا بائیں جانب پہاڑوں کے عقب میں ڈوبتے سورج کو دیکھ رہا تھا، تھوڑا دائیں گھوما تو سامنے پہاڑوں کی اوٹ سے کہوٹہ کا نرڑ اور سوڑ ویلی کا اوپری حصہ سامنے نظر آیا، اور ذرا دائیں جانب سامنے سڑک کے پاس چھے چھن کا بنیادی صحت کا مرکز اور چند دکانوں پر مشتمل کاروباری علاقہ بھی نظربآ رہا تھا۔ گویا آپ ڈب کی چھت پہ بیٹھے بیٹھے بس گھوم گھما کر سدھنوتی اور کوٹلی کے چیدہ چیدہ علاقے 360 ڈگری ویو جہاں دیکھ سکتے ہیں۔ جن جن علاقوں میں میں گیا یا جن کے پاس سے گزرا اب نام آپ سے شیئر کرتا ہوں تاکہ آپ کے اندر بھی کوئی سیلانی چھپا ہوا ہے تو وہ بھی ان معلومات کی بنیاد پر اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ چھے چھن کے ہیلتھ سینٹر کے بالکل اوپر سے آپ کو آزاد پتن، گوئیں گلہ، پلندری، افضل آباد (دھاردھرچھ) کے ٹاپ ایریاز دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے بعد ایک بلند و بالا پہاڑ منہ اٹھائے گویا کہہ رہا ہو؛ جوان ہے ہمت مجھے سر کرنے کی؟ خیر اس دورے میں تو یہ ممکن نہیں تھا، اگلی بار مقابلے کا وعدہ کر کے اس کے پیچھے موجود وادئ نمب، اسلامپورہ، بِلاں، بارل، منگ، تراڑ کھل، راولا کوٹ وغیرہ کو ذہن میں لا کر دماغی طور پر حاضری دی۔

Wednesday 14 September 2022

مواڑا کہوٹہ سے ہلاں چھے چھن تا رمبلی تک کا سفر حصہ اول

 مواڑا کہوٹہ سے ہلاں، چھے چھن تا رمبلی تک کا سفر حصہ اول

ہمارے ایک رشتے کے نانا کا کچھ عرصہ پہلے انقال ہوا، جو ہمارے ساتھ بڑی شفقت سے پیش آیا کرتے تھے، موصوف ہماری سگی نانی مرحومہ کی ہمشیرہ کے میاں تھے، اللہ انہیں غریق رحمت کرے بڑے اچھے انسان تھے۔ ان کے بیٹے ہمارے رشتے کے ماموں نسیم سے فون پر تعزیت کی تو باتوں باتوں میں ماضی کے ہمارے ان کے آبائی علاقے ہلاں نزد چھے چھن و آزاد پتن جانے کے واقے کی بات چھڑ گئی جو ویسے ہی ہنگامی طور پر بن گیا تھا۔ ہلاں دریائے جہلم کے آزاد کشمیر مغربی رخ پر ڈھلوانی علاقے میں واقع ہے، عموماً یہ ساراعلاقہ زیادہ بارشوں کے دوران لینڈ سلائیڈنگ کا شکار رہتا ہے۔ ماموں اور ان کے تین بھائی نانا کی زندگی میں ہی کرال چوک کے قریب، اسلام آباد میں منتقل ہو چکے تھے۔ آئیے آپ کے ساتھ اس سفر کی یاد تازہ کرتے ہیں؛ میں حسبِ عادت و معمول گرمیوں کی چھٹیوں میں ننھیالی گاؤں گیا ہوا تھا، مجھے پتا چلا کہ ہمارے خالہ زاد ضیا اپنی نئی نئی آرمی کی سروس سے پہلی چھٹی آئے ہوئے ہیں، سوچا آیا ہوا ہوں تو اسے ملنے مواڑا کا چکر لگا آتے ہیں۔ ماموں زاد وحید ان دنوں رمبلی اپنی ننھیال گیا ہوا تھا، ماموں مظہر بھی چھٹی پر آئے ہوئے تھے کیونکہ نانا قربان علی کی طبیعت ناساز تھی۔ اس لیے میں چھوٹے ماموں زاد عاطف جو آج کل قطر میں ہوتا ہے ان دنوں گاؤں میں زیر تعلیم تھا، اسے لے کر مواڑا چلا گیا، ساتھ میں گاؤں کے ایک دو اور دوست بھی تھے۔ پروگرام یہ تھا کہ عاطف دوستوں کے ساتھ خریداری کر کے واپس آ جائے گا جبکہ میں مواڑا خالہ کی طرف چلا جاؤں گا۔ گورا گورہ پہنچے تو سب سے پہلے خالہ کے ہاں حاضری دی، خالو حسب معمول چراہ گاہ کی طرف نکلے ہوئے تھے، اب ان سے شام کو ملاقات ممکن تھی۔ وہیں ماموں نسیم بھی آئے ہوئے تھے وہ بھی نانا قربان علی کو دیکھ کر آئے تھے۔ نانا کی بیماری کا سنا تو خالہ نے مجھے اور ضیا کو بھی جانے کا مشورہ دیا، وہ خود جاتیں لیکن رمبلی جانا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوا کرتی کیونکہ علاقہ کسی طرف سے بھی جائیں بڑا دشوار گزار ہے۔ اب تو ماشاءاللہ رمبلی بابوٹ کی حدود تک سڑک بن گئی ہے، آج سے پندرہ سال پہلے گیارہ نمبر کے ذریعے یعنی پیدل ہی جانے کا رواج ہوا کرتا تھا۔ پروگرام یہ بنا تھا کہ اس بار ہمیں کئی جگہ جانا ہو گا کیونکہ دو تین جگہ فوتگیاں ہو چکی تھیں اور ہمیں یہ ذمہ داریاں نبھانا پڑنی تھیں۔

Monday 12 September 2022

میروال سمال بارانی ڈیم نزد جنڈ ضلع اٹک کا سفری بلاگ

 میروال سمال بارانی ڈیم نزد جنڈ ضلع اٹک کا سفری بلاگ

میں سکول اور کالج کے دور میں کرکٹ اور فٹبال باقاعدگی سے کھیلتا تھا۔ جب بھی ٹیمیں کوئی اہم میچ یا کوئی ٹورنامنٹ جیتا کرتی تھیں تو شہری جم پل جوان کسی گاؤں یا دیہی علاقے کا ڈے ٹرپ کی مانگ کیا کرتے تھے۔ کہاں جانا ہے اس کا دار ومدار ووٹنگ پر منحصر ہوتا تھا، ہم سینئرز کا ہمیشہ سے یہ دستور رہا ہےکہ ہم کسی دور دراز ڈیم جو کہ گاؤں سے قدرے دور ہو تاکہ ہمیں وہاں کھل کر پرائیویسی میسر ہو اور اہل علاقہ بھی ہمارے شر سے محفوظ رہیں۔ ٹرپ میں حسب معمول وہی تیراکی، خود پکانا، کھانا، نہانا اور پھر لوٹ کر بدھوؤں کا واپس گھر کو آنا۔ اب بیرون ملک ہونے کی وجہ سے یہ سلسلہ کچھ رک سا گیا ہے لیکن پچھلے دنوں ہمارے المسلم فٹبال کلب نے ٹورنامنٹ جیتا اور کلب کے صدر نے مجھے مبارکباد تھی اور مشورہ مانگا کہ کیا کرنا چاہیے۔ میں نے ماضی کے ایک ٹرپ کی بنیاد پر میروال ڈیم فتح جنگ (اب تحصیل جنڈ) جانے کا مشورہ دیا، اس کی وجہ یہ تھی کے میرے دور میں ہم جب بھی وہاں جاتے تھے تو آبادی سے ہٹ کر یہ جگہ بہت پُرسکون لگا کرتی تھی۔ فیاض نے بھی ایسا ہی کیا اور میں نے اس ٹرپ کے اخراجات بھی اپنے پلے سے ادا کرنے کا اعلان کیا۔ اس سال کے ٹرپ پہ جو گئے وہی آپ کو اس کی روداد بتا سکتے ہیں، آج میں آپ اپنے میروال ڈیم ٹرپ کی یاد تازہ کرواتا ہوں۔ حسبِ معمول پہلے سے طے شدہ تاریخ کو سب احباب کو ہفتے کے دن صبح 8 بجے تیار رہنے کا کہہ دیا گیا، صبح سویرے ہمارے ایک ٹرانسپورٹر دوست لقمان آفریدی اپنا مزدہ منی ٹرک لے کر حاضر ہو گئے، سب احباب دریاں بچھا کر ٹرک کے فرش پر سوار ہو گئے۔ کھانے پینے کا سامان لادا اور پشاور روڈ خان بادشاہ پٹرول پمپ سے ڈیزل فل کروا کر چل پڑے، ترنول سے فتح جنگ روڈ (موجودہ این 80)پر ٹرن لیا، دھماں پھاٹک سے آگے نکل کر ماما آصف کے گاؤں موہڑی کو سلامی دیتے ہوئے قطبال اور پھر فتح جنگ سے کوٹ فتح خان میانوالی روڈ پہ ٹرن لیا۔ فتح جنگ سے ایک دوست عارف کو بھی ساتھ بٹھا لیا جس کی ننھیال کا تعلق میروال سے تھا۔

Sunday 11 September 2022

دیسی سائے عرف خرگوش کے شکار پر مبنی سفری بلاگ

دیسی سائے عرف خرگوش کے شکار پر مبنی سفری بلاگ

ہمارے ایک رشتے کے ماموں ملازمت کے سلسلے میں ایک بڑا طویل عرصہ کویت اور سعودیہ میں رہے ہیں، ان کی فیملی ہماری ننھیالی حویلی کے ایک پورشن میں گاؤں میں ہی رہتی تھی۔ ماموں کے سارے دوست شہروں میں رہتے تھے اور ان کی کی اولادیں بڑے اچھے سکولوں اور کالجز میں پڑھتی تھیں چونکہ ماموں گاؤں میں ہی رہائش پذیر تھے اور گاؤں میں مناسب تعلیمی ادارے نہ ہونے سے ماموں دوستوں کے سامنے کومپلیکس کا شکار تھے۔ ابا جی کے مشورے سے انہوں نے ویسٹرج تھری میں جگہ خرید لی تاکہ اپنے لیے وہاں مرضی کا گھر بنا کر فیملی کو شہر میں شفٹ کر سکیں، گھر کی تعمیر بھائی تصدق اور ماموں سخاوت، بھائی ساجد، ماموں زاد وحید، خالہ زاد انصر وغیرہ کے حصے میں آئی کیونکہ وہ کافی عرصے سے اس فیلڈ میں کام کر رہے تھے۔ ہمارا ننھیال پچھلی تین نسلوں سے جہازی نسل کے کتوں کو پالنے، اور ان کے ذریعے شکار کا شوق رکھتا ہے، نانا محمد حسین اپنے علاقے کے بہت مشہور شکاری سرخیل تھے، ان سے یہ شوق ماموں سخاوت، ماموں منور اور ان کے بعد  اگلی نسل ماموں زاد وحید تک منتقل ہو چکا تھا۔ جہازی نسل کے کتے دو طرح کے مقابلے کے لیے تیار کیے جاتے تھے ایک تو دوڑ کے لیے دوسرا دیسی خرگوش جسے ہم دیسی زبان میں سایا کہتے ہیں کو پکڑنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ جب یہ پارٹی تعمیرات کے سلسلے میں ویسٹرج تھری آئی تو ہمارے ہاں ٹھہری، چند دنوں بعد ماموں سخاوت گاؤں جا کر جہازی کتے بھی ساتھ لے آئے۔ ہمارے ابا جی شروع دن سے نمازی انسان ہیں وہ پاکی پلیدی کا بڑا خیال رکھتے ہیں، اس وجہ سے وہ گھر میں کتا نہیں رکھنے دیتے تھے۔ شروع میں تعمیراتی گروپ ہمارے گھر ہی رہتا رہا لیکن کتے نہیں تھے، لیکن جب کتے آئے تو پھر اس گروپ نے فیصلہ کیا کہ ابا کو ٹینشن دینے کی بجائے بہتر یہی ہو گا جہاں گھر کی تعمیر ہو رہی ہے کتے بھی وہیں رکھے جائیں۔ چونکہ اب تک ایک پورشن کے سارے کمرے تیار ہو چکے تھے بس چھتیں ڈلنا باقی تھیں۔

Saturday 10 September 2022

خان پور ڈیم کے پانیوں میں دوستوں کے ساتھ گرمی بھگاؤ پروگرام

 خان پور ڈیم کے پانیوں میں دوستوں کے ساتھ گرمی بھگاؤ پروگرام

جب میں مستقل طور پر پاکستان میں ہوتا تھا اور گرمیوں کا سیزن ہوتا تو ہم سب دوست گرمی دور کرنے کے لیے ایک دن اجتماعی اشنان یا جشنِ غسل منانے کسی جھیل پر جایا کرتے تھے۔ یہ ایک دن عام گرمیوں میں ہوتا تھا لیکن جب گرمی اپنے ریکارڈ توڑنے لگتی تو پھر میں یہ بڑھتے بڑھتے ہفتے میں ایک دن بن جایا کرتا تھا یعنی کسی ویک اینڈ پہ یا جمعے کے دن نکل جانا اور وہیں سارا دن گزار کر بارا بار نہا کر، شام کو ہلکان ہو کر واپس آنا ہمارا معمول بن جایا کرتا تھا۔ شروع شروع میں ہم پشاور روڈ پہ واقع سابقہ پولی ٹیکنیک اور موجودہ آرمی ای ایم ای کالج کے عقب میں لوکل کسیوں نالوں چھپڑوں میں جایا کرتے تھے کیونکہ وہاں قریب ہی ہماری دوست بٹ فیملی کے گھر بھی تھے، یوں ایک ٹرپ میں نہانے، سمیت فشنگ اور میل ملاپ سبھی ہو جایا کرتے تھے۔ لیکن پھر ہم نے لوکل سرکل سے باہر نکلنے کا سوچا، کبھی کبھار ہم اپنے جگت ماما آصف کے گاؤں موہڑی جو کہ موجودہ اسلام آباد ائیرپورٹ کے مغرب میں قطبال سے زرا پہلے آتا ہے وہاں جاتے اور راما ڈیم کی جھیل کے پانیوں کے مزے لیتے، کبھی فتح جنگ کے لوکل شاہپور ڈیم، کبھی اسلام آباد ہائی وے کے آس پاس موجود نالہ کورنگ میں موجود قدرتی جھیلوں میں اپنا شوق پورا کرتے تھے۔ لہتراڑ روڈ پر واقع نیلا سند بھی کئی بار ہمارا میزبان بنا، اسی طرح کئی بار راول ڈیم اور سملی ڈیم کو بھی ٹرائی کیا گیا لیکن ہم سب دوستوں کو کوئی جگہ زیادہ پسند نہ آئی۔ ہمارے دوست شاہد بٹ کی ننھیال ٹیکسلا کے مضافات میں ہے۔ ایک بار جب شاہد کے خالہ زاد شوکت بھی ہمارے ساتھ اشنان پارٹی میں شامل تھے، شوکت نے ہمیں اگلی بار خان پور ڈیم کو ٹرائی کرنے کا کہا۔ نام تو کئی بار سنا تھا لیکن ہمارا دھیان کبھی اس طرف نہیں گیا تھا۔ جب تجسس جاگا تو بحث کے نتیجے میں یہ فیصلہ ہوا کے آئندہ کسی جمعے خان پور ڈیم کا افتتاح کیا جائے گا۔ ہمارے ایک پٹھان دوست جگت ماما جاوید اپنے دوستوں کے ساتھ جا چکے تھے انہوں نے کہا کہ باقی تو سب ٹھیک ہے لیکن وہاں نزدیک کھانے پینے کی دکانیں یا ریسٹورینٹس نہیں ہیں۔ فیصلہ ہوا کہ کھانے کا سامان ساتھ لیا جائے گا، وہیں نہایا بھی جائے گا، کھانا بھی پکایا جائے گا اور پیٹ پوجا بھی کی جائے گی۔ ماضی کے ایک ناخوشگوار واقعے کی روشنی میں فیصلہ ہوا کہ اس بار وہی دوست جائیں گے جن کو تیراکی آتی ہو، غیر تارُو المعروف اناڑی حضرات کے لیے ڈیم میں نہانا بچوں کا کھیل نہیں اس لیے وہ اپنے اپنے گھروں کے باتھ رومز یہ میں شوق پورا کریں گے۔

Friday 9 September 2022

مارگلہ پیر سوہاوہ منال مکھنیال تا دامن کھیتر ایک سفری بلاگ

 مارگلہ پیر سوہاوہ منال مکھنیال تا دامن کھیتر ایک سفری بلاگ

آج آپ سے اپنے چند سال پہلے کے ایک روڈ ٹرپ کی یاد تازہ کرتے ہیں جو کیا تو کسی اور مقصد کے لیے گیا تھا لیکن اس سے مجھے کچھ ملا یا نہیں ملا یہ تو ایک ثانوی بات ہے لیکن سیلانی کو وہ من چاہا ضرور مل گیا جس کی اسے شروع ہی سے تلاش رہی ہے جی ہاں آپ بالکل سمجھ گئے قدرتی مناظر سے بھرپور خوبصورت مقامات۔ جی تو بات ہو رہی ہے پیر سوہاوہ اور مارگلہ پلز کے مضافاتی علاقوں کی تو لگے ہاتھ بتاتا چلوں کہ تاریخی طور پر پیر سوہاوہ اسلام آباد سے قریباً 17 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جو کہ مارگلہ ہلز نیشنل پارک یا سلسلہ ہائے کوہ مارگلہ کا سب سے مشہور علاقہ ہے۔ لیکن وہ کیا کہتے ہیں کہ دادا پہلوان کے مقابلے میں پوتا پہلوان زیادہ مشہور ہو جاتا ہے بالکل ویسے ہی سطح سمندر سے 3000 فٹ سے زائد کی بلندی پر واقع منال گاؤں جو کہ اب ایک بڑا قصبہ بن چکا ہے اور خاص کر اپنے منال ریسٹورنٹ کی وجہ سے عالمی شہرت کا حامل ہے، پیر سوہاوہ کو شہرت میں پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ میں جب چار سال پہلے چھٹی پر گیا تو بھتیجے طاہر نے جس نے پیر سوہاوہ کے مضافات میں اپنا کلینک کھولا ہوا تھا نے کہا تیار رہیں آپ کے لیے پیر سوہاوہ کے مضافات میں جگہ دیکھ رکھی ہے، آپ کو پسند آئے تو سودا کر لیں گے۔ اسلام آباد، مارگلہ ہلز اور پیر سوہاوہ کے ذکر نے بے چین کر دیا کیونکہ میں کالج دور سے ہی یہاں آتا جاتا رہا تھا اس لیے مجھے یہاں کے سب علاقوں کے بارے میں اچھا خاصہ پتہ تھا۔ دو تین دن فوتگیاں بھگتا کر ہفتے کے دن طاہر کو کار کا تیل پانی چیک کرنے کا کہہ کر تیاری پکڑ لی۔ صبح ساڑھے نو بجے پشاور روڈ سے ہو کر گولڑہ موڑ سے گولڑہ روڈ پر مڑے اور پھر بذریعہ کشمیر ہائی وے موجودہ سری نگر ہائی وے پر سفر کرتے ہوئے زیرو پوائنٹ جا پہنچے۔ زیرو پوائنٹ پہنچ کر فیصل ایونیو پر جا مڑے اور فیصل مسجد کے پڑوس سے پیر سوہاوہ روڈ پر جا نکلے۔طاہر کی کار کہیں کہیں ہانپنے لگتی کیونکہ کہیں کہیں چڑھائی بہت ہی مشکل لگ رہی تھی۔ خیر جیسے تیسے کر کے دامن کوہ کو دور سے سلامی کرتے ہوئے بالآخر اللہ اللہ کر کے اوپر چوٹی پر پہنچ ہی گئے۔ منال جو اب ایک کافی بڑے قصبے کا روپ دھار چکا ہے، اس کی کنکریٹ زدہ خوبصورتی کو نظر انداز کرتے ہوئے اس سے آگے کے قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے منال کو کراس کیا۔جاتے وقت دائیں جانب نیچے اسلام آباد شہر چمکتی دھوپ میں نظارے دکھا رہا تھا، تو اس سے آگے دھویں اور دھند میں لپٹا راولپنڈی شہر قدرے اداس اداس نظر آ رہا تھا۔ سامنے دور تک مری کی پہاڑیوں کے بیچوں بیچ کشمیر کے طرف کے فلک بوس برف پوش پہاڑ سر اٹھائے دعوتِ نطارہ دے رہے تھے۔ نیچے قدموں تلے مارگلہ ہلز نیشنل پارک اپنی ہریالی کے جوہر دکھا رہا تھا، بائیں جانب نیچے ہری پور کی وادیاں رونق افروز ہو رہی تھیں۔ اوپر جا کر نظارہ دیکھنے والا تھا، آگے دائیں جانب لوہی دندی کی چوٹی، بروٹی ٹاپ و آبشار، ٹلہ گرانی، ٹلہ چرونی یہاں کی مشہور پہاڑی چوٹیاں دیکھنے کو ملیں۔ ٹلہ گرانی، پیر سہاوہ کے مضافات میں سطح  سمندر سے 1181 میٹر / 3874 فٹ بلند سلسلۂ کوہ کی ایک مشہور چوٹی ہے۔ ٹلہ چرونی یہاں کی ایک اور بلند ترین چوٹی ہے جو کہ سطح سمندر سے 1000 میٹر/3300 فٹ بلند بتائی جاتی ہے۔ منال سے قدرے آگے جا کر دائیں جانب مارگلہ کی پہاڑی سلسلے کی ایک اور چوٹی واقع ہے جسے لوہی دندی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہیں ایک غار میں صوفی بزرگ حضرت شاہ عبدالطیف المعروف بری امام کی چلہ گاہ واقع ہے۔ جن کی تبلیغ اور حسن سلوک سے چور پور کہلانے والی بدنام زمانہ جگہ نور پور شاہاں کہلائی جہاں آج جناب شاہ عبدالطیف بری امام سرکار کا مزار اقدس واقع ہے۔ مارگلہ سلسلے کی پہاڑیوں میں واقع بروٹی ٹاپ سے نیچے بہتی آبشار انتہائی خوب صورت اور سکون پرور جگہ ہے۔ مارگلہ پہاڑیاں یا سلسلہ ہائے کوہ مارگلہ اسلام آباد، پاکستان کے شمال میں کوہ ہمالیہ کے سلسلے میں قریب ترین واقع ہونے کی وجہ سے یہاں بہت آسانی سے پہنچا جا سکتا ہے۔ مارگلہ نیشنل پارک کا علاقہ 12,605 ہیکٹر رقبے پر مشتمل ہے جس میں اسلام آباد کے علاوہ مری، ہری پور، ایبٹ آباد کے پہاڑی سلسلے شامل ہیں جہاں ہر کلومیٹر بعد ایک سے ایک مقام کہتا نظر آتا ہے کو مسافر ٹھہر دم تو لے لے، ہم بھی دیکھنے کے لائق مقام ہیں۔ الغرض مارگلہ ہلز کے دونوں جانب بہت سی پہاڑی چوٹیاں، قدرتی آبشاریں، چشمے اور وادیوں ہیں جو دیکھنے کے لائق ہیں۔ سرما میں جب درجۂ حرارت بہت کم ہو جاتا ہے تو یہاں بعض اوقات ہلکی اور کبھی کبھار کافی زیادہ برفباری بھی ہو جاتی ہے۔ اب ہم پیر سوہاوہ کے نشیبی علاقے میں داخل ہوئے اور سنگھڑا کے مقام پر اسلام آباد کے کیپیٹل ایریا کو پیچھے چھوڑتے ہوئے خیبر پختونخواہ کی حدود میں جا پہنچے۔ یہاں میدانی علاقہ قریباً نہ ہونے کے برابر ہے، زیادہ تر ڈھلوانی، عمودی چٹانی علاقہ ہے لیکن سبزے سے بھرپور ہے۔ مکھنیال ایک بہت خوبصورت مقام ہے، وہیں طاہر کے دوست بھی آن ملے، انہوں نے مکھنیال سے لے کر دامن کھیتر تک کے علاقے کے درمیان ڈنہ فیروز پور، کوہمل بالا، بانٹھ، گرین ہلز وغیرہ سب علاقے جہاں جہاں ان کی اطلاع کے مطابق جگہ مل سکتی تھی، دکھائی لیکن مجھے بالکل عمودی ڈھلوانی علاقہ جو کہ بلاشبہ دیکھنے میں تو جنت نظیر ہے لیکن بہت زیادہ غیر ہموار سطحِ زمین مجھے تعمیر کے معاملے میں مناسب نہیں لگا۔ کوہمل بالا سے ذرا پہلے کوہمل گلی میں ایک جگہ مجھے پسند آئی جو کہ انہی صاحب کی اپنی ملکیت تھی جو ہمیں دیگر جگہیں دکھا رہے تھے۔ ان سے اس جگہ بارے دریافت کیا تو پتہ چلا وہ اپنے چھوٹے بھائی کے لیے جگہ تیار کروا رہے ہیں جس کی آئندہ سال شادی طے ہے۔ قصہ مختصر جس مقصد کے لیے یہ سفر کیا تھا وہ تو کسی طور پورا نہ ہوا لیکن سیلانی کو دیکھنے کے لیے پہاڑ، چوٹیاں، چیڑھ کے درخت، ڈھلوانی سبزہ زار، چھوٹے بڑے آبشار اور قدرتی بہتے چشمے دیکھنے کو خوب ملے۔ اگر آپ کے پاس وقت ہو تو آپ فور بائی فور چیپ لے کر فیملی کے ساتھ براستہ اسلام آباد جائیں اور واپسی پر ہری پور، خان پور اور ٹیکسلا کے طرف سے ہوتے ہوئے آئیں۔ یقین مانیں اور کچھ ہو نہ ہو لیکن قدرت کے اتنے نزدیک جا کر آپ کی جسم و روح ضرور سیراب ہوں گی۔

وہ تو نہ مل سکا مجھے جس کی تلاش تھی

لیکن وہ مل گیا جو ہمیشہ سے من چاہا تھا