مواڑا اور آئیل راجگان کہوٹہ کا ایک مختصر سفری بلاگ
ننھیالی گاؤں جنجور راجگان سے واپسی کے بعد راولپنڈی کینٹ کی گرمی وزن کم کرنے میں کافی ممد و معاون ثابت ہوئی، بمشکل 5 دن گزارے تھے کہ خیال آیا کہ اب خالہ کی تیمارداری کے لیے چلتے ہیں۔ ان کو دیکھنے اس لیے نہیں گیا کہ میری نظر میں ہارٹ ٹریٹمنٹ کے بعد ان جیسے مریض کو آرام کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ اکثر یہی دیکھا گیا ہے کہ خواہ مخواہ کی تیمارداری بھی بعض اوقات مریض کے لیے وبالِ جان بن جاتی ہے۔ چھوٹے بھائی ابرار کو بتایا کہ "میں خالہ کو دیکھنے مواڑا جا رہا ہوں، کوشش کروں گا کہ کل تک واپس آ جاؤں"۔ صبح صبح بھتیجا تیمور مجھے موٹر بائیک پر گورڈن کالج اتار کر واپس گھر چلا گیا، وہاں سے کہوٹہ اے سی کوچ سروس میں بیٹھا، صبح کا وقت تھا اس لیے رش نہ ہونے کے برابر تھا اس لیے میں رستے کے قدرتی مناظر دیکھنے میں مگن ہو گیا۔ سہالہ سے آگے کہوٹہ تک روڈ کے دونوں اطراف سر سبز و شاداب گھنے درختوں کا ذخیرہ ہے، یہ گرین بیلٹ سفر کو اور بھی دیدہ زیب بنا دیتی ہے، چکیاں کے بعد ہلکے ہلکے بادل چھانے لگے گئے تھے جو اس بات کی نشانی تھے کہ جلد یا بدیر بارش ہو گی۔ نظاروں میں گم تھا کہ یاد آیا کہ نعیم کو فون ہی نہیں کیا، نتھوٹ جا کر اسے فون ملایا، رابطہ ہونے پر بتایا کہ "میں 10 منٹ بعد کہوٹہ میں ہوں گا، تم جہاں ہو وہاں سے پہنچنے کی کوشش کرو" اس نے کہا کہ "آپ ماموں زاد ظفر کے پاس پہنچو میں آدھے گھنٹے میں بکنگ سے فارغ ہو کر آ جاتا ہوں"۔ میں پنجاڑ چوک اتر گیا، اور قریب ہی میں مقیم تین عدد ماموں زاد کے گھر ان کی خیریت کا پتہ کرنے جا پہنچا جو بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں شہر میں مقیم ہیں اور چھٹیوں میں گاؤں والے گھر واپس چلے جایا کرتے ہیں۔ نعیم کو دوبارہ فون کر کے بتا دیا کہ "مین بازار میں رش ہو گا تم ظفر کی دکان کی بجاۓ پنجاڑ چوک کی طرف آ جاؤ"۔