Pages

Tuesday 18 August 2020

مواڑا اور آئیل راجگان کہوٹہ کا ایک مختصر سفری بلاگ

مواڑا اور آئیل راجگان کہوٹہ کا ایک مختصر سفری بلاگ
ننھیالی گاؤں جنجور راجگان سے واپسی کے بعد راولپنڈی کینٹ کی گرمی وزن کم کرنے میں کافی ممد و معاون ثابت ہوئی، بمشکل 5 دن گزارے تھے کہ خیال آیا کہ اب خالہ کی تیمارداری کے لیے چلتے ہیں۔ ان کو دیکھنے اس لیے نہیں گیا کہ میری نظر میں ہارٹ ٹریٹمنٹ کے بعد ان جیسے مریض کو آرام کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ اکثر یہی دیکھا گیا ہے کہ خواہ مخواہ کی تیمارداری بھی بعض اوقات مریض کے لیے وبالِ جان بن جاتی ہے۔ چھوٹے بھائی ابرار کو بتایا کہ "میں خالہ کو دیکھنے مواڑا جا رہا ہوں، کوشش کروں گا کہ کل تک واپس آ جاؤں"۔ صبح صبح بھتیجا تیمور مجھے موٹر بائیک پر گورڈن کالج اتار کر واپس گھر چلا گیا، وہاں سے کہوٹہ اے سی کوچ سروس میں بیٹھا، صبح کا وقت تھا اس لیے رش نہ ہونے کے برابر تھا اس لیے میں رستے کے قدرتی مناظر دیکھنے میں مگن ہو گیا۔ سہالہ سے آگے کہوٹہ تک روڈ کے دونوں اطراف سر سبز و شاداب گھنے درختوں کا ذخیرہ ہے، یہ گرین بیلٹ سفر کو اور بھی دیدہ زیب بنا دیتی ہے، چکیاں کے بعد ہلکے ہلکے بادل چھانے لگے گئے تھے جو اس بات کی نشانی تھے کہ جلد یا بدیر بارش ہو گی۔ نظاروں میں گم تھا کہ یاد آیا کہ نعیم کو فون ہی نہیں کیا، نتھوٹ جا کر اسے فون ملایا، رابطہ ہونے پر بتایا کہ "میں 10 منٹ بعد کہوٹہ میں ہوں گا، تم جہاں ہو وہاں سے پہنچنے کی کوشش کرو" اس نے کہا کہ "آپ ماموں زاد ظفر کے پاس پہنچو میں آدھے گھنٹے میں بکنگ سے فارغ ہو کر آ جاتا ہوں"۔ میں پنجاڑ چوک اتر گیا، اور قریب ہی میں مقیم تین عدد ماموں زاد کے گھر ان کی خیریت کا پتہ کرنے جا پہنچا جو بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں شہر میں مقیم ہیں اور چھٹیوں میں گاؤں والے گھر واپس چلے جایا کرتے ہیں۔ نعیم کو دوبارہ فون کر کے بتا دیا کہ "مین بازار میں رش ہو گا تم ظفر کی دکان کی بجاۓ پنجاڑ چوک کی طرف آ جاؤ"۔

Saturday 15 August 2020

جنجور راجگان کہوٹہ راولپنڈی کا 2016 کا سفری بلاگ

جنجور راجگان کہوٹہ راولپنڈی کا 2016 کا سفری بلاگ 
چار سال پہلے کی بات ہے جب مجھے اکیلے پاکستان جانا پڑا، گرمیوں میں جاؤں تو اکثر اوقات اکیلا ہی جاتا ہوں۔ پہلے دو دن ابا جی کے ساتھ گزارے، تیسرے دن صبح صبح ان کو ساتھ لے کر سی ایم ایچ راولپنڈی سے ان کا مکمل میڈیکل چیک اپ کروانے لے گیا۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ "ویسے تو بزرگ کافی فٹ ہیں لیکن عمر کے حساب سے کھانے پینے کا مناسب خیال نہیں رکھتے، انہوں نے فوج کے زمانے سے ہی عادت بنا لی ہے کہ 3 وقت کا کھانا ہی کھاتے ہیں، مریض کی ہسٹری کے مطابق ان کو شام کا کھانا جلدی کھانے کی عادت ہے، یوں رات کے کھانے اور صبح ناشتے کے درمیان کا وقفہ بہت زیادہ ہے، اب انہیں چاہیے کہ تین کی بجائے 5 تا 6 اوقات میں وقفے وقفے سے تھوڑا بہت کھاتے رہا کریں، رات کو سونے سے قبل گرم دودھ کا گلاس ضرور لیں تاکہ جسم کو متوازن غذا ملتی ہے"۔ ابا جی کو لے کر ہسپتال سے فارغ ہوا، ان کو واپس ان کے گھر ویسٹرج 3 چھوڑا۔ جب وہ آرام کرنے لیٹ گئے تو میں وہیں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ "بھولیا اب بتا کیا کروں؟" دماغ کے جمے دہی کو بلویا/جھنجھوڑ کر لسی میں بدلنے کی دیر تھی کہ سیلانیت جسے میں پاؤں کا چکر کہتا ہوں نے خارش شروع کر دی۔ وقت دیکھا تو ڈیڑھ بج رہا تھا کھانا کھا چکا تھا، اب تو سونا تھا لیکن اب میری دن کے وقت سونے کی عادت بالکل ختم ہو چکی ہے اس لیے، چھوٹے بھائی ابرار کو بتایا کہ "چارپائی توڑنے سے بہتر یہی ہے کہ میں ذرا ننھیال کا چکر لگا آؤں"۔ میرا خاندانی ڈرائیور چھوٹا بھائی شعیب کہیں مظفرآباد کی طرف گیا ہوا تھا۔ اس لیے میں نے خود ہی نکلنے کا سوچ لیا، دھوپ سے بچنے کے لیے عینک لگائی اور رکشہ پکڑ کر سابقہ تعلیمی درس گاہ گورڈن کالج جا اترا جہاں سے کہوٹہ کے لیے اے سی کوچ سروس چلتی ہے۔ مورگاہ تک کوچ رستے میں رش کی وجہ سے کئی جگہ رکی لیکن کوچ کا اے سی اچھی نسل کا تھا کہ اندر رش ہونے کے باوجود کافی ٹھنڈک کا احساس ہو رہا تھا۔ مورگاہ سے ہمک تک رستہ صاف تھا اس لیے سفر جلد کٹ گیا، ہمک سے سہالہ تک کافی رش تھا لیکن شکر اللہ کا کہ سہالہ پھاٹک کھلا مل گیا اور کوچ جلدی پنیالی جا پہنچی، میں نے بیٹھے بٹھائے خالہ زاد نعیم کو کال کی، اور بتایا کہ "میں آ رہا ہوں، جنجور چلیں گے اس لیے گاڑی لے کر کہیں اور نہیں نکل جانا، شام تک میرے ساتھ بک ہو"۔