Pages

Sunday 16 October 2022

مندرہ تھوہا بیور کہوٹہ فاتحہ خوانی ٹرپ جو روڈ ٹرپ میں بدل گیا

 مندرہ تھوہا بیور کہوٹہ روڈ ٹرپ

آج بڑے بھائی کے بیٹے کا ولیمہ تھا اور خالہ زاد انصر سے بات ہو رہی تھی کہ باتوں باتوں میں اس کے ہمراہ کیا گیا ایک روڈ ٹرپ یاد آ گیا، چلیے آپ سے اس روڈ ٹرپ کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ ایک بار جب میں پاکستان گیا تو خالہ زاد انصر ہی مجھے ایئرپورٹ لینے کے لیے آیا، وہ اس وقت میرے اسلام آباد والے گھر کے ایک پورشن میں ہی رہائش پذیر تھا۔ اس کی اور اس سے چھوٹی خالہ زاد دونوں کی پیدائش بھی ہمارے گھر پہ ہوئی تھی۔ ایک طرح سے اس کی عمر کا ایک بڑا حصہ ہمارے گھر ہی گزرا تھا اور دوست احباب اسے ہمارا حقیقی بھائی ہی گردانتے تھے۔ بقول ابا جی کے وہ ہمارے لیے ان کی فوجی اصطلاح میں پچیسویں گھنٹے کا کام کرتا تھا یعنی ہمہ وقت مدد کے لیے تیار ملتا تھا۔میں صبح صبح اسلام آباد پہنچا، شام تک محلے داروں اور اقرباء کے ہاں ہونے والی فوتگیوں سے فارغ ہوا تھا کہ انصر پی ٹی سی ایل کی جاب سے چھٹی کر کے واپس گھر آ گیا۔ چائے پہ اکٹھے ہوئے تو چونکہ اگلے دن چھٹی تھی اس لیے ہم دونوں خالہ زاد کا یہ پروگرام طے ہوا کہ ہم کل صبح ناشتہ کر کے مندرہ، کلر، تھوہا، مواڑہ، جنجور کا ایک ڈے ٹرپ لگائیں گے، جس کا مقصد وہی فوتگیوں پہ فاتحہ خوانی اور سبھی رشتے داروں سے میل جول بڑھانا مقصود تھا۔ پروگرام طے کر کے ہم سب ہال روم میں ہی سو گئے، صبح اٹھ کر ماں جی کے ہاتھ کا ناشتہ ملنا بھی ایک نعمت غیر مترکبہ سے کم نہیں تھا، ناشتہ کر کے اللہ کا شکر ادا کیا اور دونوں خالہ زاد میڈم سوزوکی میں سوار ہو کر پشاور روڈ اور پھر جی ٹی روڈ سے ہوتے روات کو کراس کرتے، مندرہ کی طرف رواں ہو گئے۔ دس بجے کا وقت ہوا ہو گا جب ہم ریڈیو پاکستان روات کے پاس سے گزرے، بائیں جانب مانکیالہ سٹوپا کی عمارت دعوتِ نظارہ دیتی نظر آ رہی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ  پوٹھوار کی سرزمین ناہموار ہونے کے باوجود اپنے اندر ایک الگ حسن رکھتی ہے۔ گرمی کا موسم ہونے کے باوجود ہریالی اپنے جوبن پر تھی، جی ٹی روڈ کے ساتھ لگائے گئے درخت اپنا جوبن دکھا رہے تھے۔ چھنی عالم شیر خان، اور بانٹھ موڑ سے ہوتے مندرہ سے پہلے چوک پنڈوڑی جانے والی سڑک پر مڑ گئے اور نوازآباد نامی آبادی میں واقع خالو حکم داد کے گھر پہنچ گئے، ان کے بہنوئی اور ہمارے خالو فضل داد کا حال ہی میں گیہہ کوٹلی آزاد کشمیر میں انتقال ہو گیا تھا، ان سے ان کے بہنوئی کے سانحۂ ارتحال پر تعزیت کی اور فاتحہ خوانی کی۔ ان کے بیٹے اور ہمارے دونوں خالہ زاد تلاش معاش کے سلسلے میں ابوظہبی میں مقیم ہیں، پیچھے خالہ خالو اور دونوں خالہ زاد بھائیوں کی فیملیاں اور بچے ہی تھے۔ خالو کھانا کھانے کے لیے اصرار کر رہے تھے لیکن ہم نے چائے کے ساتھ ہلکا پھلکا ناشتہ کیا اور اجازت چاہی، مندرہ چوک پنڈوڑی روڈ پر دریائے کانشی کو کراس کر کے کُری دولال سے ہوتے ہوئے چوک پنڈوڑی جانے کے لیے چل پڑے۔

گمٹی سے ہوتے کُری راجگان کو پاس کرتے ہوئے بھاٹہ جا پہنچے، بھاٹہ اس روڈ پر سب سے بڑی آبادی ہے۔ گرمالی سے ہوتے ہوئے نندنہ جٹال کو کراس کرتے ہوئے چوک پنڈوڑی جا پہنچے۔ یہاں پہنچے تو انصر کو ان کے ڈی صاحب کی کال ملی کہ نانی کہاں ہو؟ یار ادھر ایک مشکل کام نکل آیا ہے، وی آئی پی ڈیوٹی ہے اس لیے تمہیں شام تک یہ جاب ڈن کرنی ہے۔ انصر پی ٹی سی ایل کے انڈر گراؤںڈ کیبل سسٹم کو ایسے جانتا ہے جیسے دائی پیٹ میں بچے کو جانتی ہے۔ اس نے ڈی (ڈائریکٹر صاحب) کو کہا جہاں آپ فالٹ بتا رہے ہیں، وہاں سارا ایریا کنکریٹڈ ہے، آپ ڈِگر اور مزدور بھجوا دیں، جب تک وہ کھدائی مکمل کرتے ہیں میں آ کر گھنٹے دو گھنٹے میں لائن چالو کر دوں گا۔ تجربے کے لحاظ سے محکمے میں مشہور نانی انصر کی بات سارے محکماتی نواسے بخوبی جانتے ہیں، اس لیے انصر کے اسسٹنٹ اور چچا زاد ناصر کے سربراہی میں ریکوری ٹیم اپنا کام کرنے لگی اور میں نے خالہ زاد کی ڈیوٹی کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے سسرالی کلر سیداں کے لیے کسی اور دن کا انتخاب کر کے سیدھا بکھڑال کہوٹہ تھوہا روڈ واپس سے جانے کا ارادہ کر لیا۔ لیکن جب وہ چنام موڑ سے تھوہا روڈ پر مڑا تو میں نے پوچھ لیا کہ جاب نہیں دیکھنی؟ تو نانی نے کہا کہ دو گھنٹے سے پہلے تو کنکریٹ ہی نہیں توڑی جا پائے گی، ہم اتنی دیر میں تھوہا، مٹور نارہ اور بیور سے ہوتے براستہ کہوٹہ اسلام آباد ایکسپریس وے سے ہو کر چکلالہ روڈ پہ جائے وقوعہ پر پہنچیں گے۔ آپ فکر نہیں کریں، تین گھنٹے سے پہلے وہ فالٹ ٹریس نہیں کر سکیں گے، ہم اس سے پہلے وہاں پہنچ جائیں گے۔ یوں کلر، تھوہا، مواڑا، جنجور کا فاتحہ خوانی کا ٹرپ اب صرف روڈ ٹرپ میں بدل کر رہ گیا تھا۔ تھوہا روڈ نیا نیا بنا تھا، اس لیے ہم بھورہ حیال سے ہوتے، تھوہا خالصہ کے آبائی علاقے کو سرسری سلام کرتے، مرحومین کے لیے دعا کرتے تھوہا/مٹور کی چڑھائی پر جا لگے۔ ان دنوں میرا مٹور کا علاقہ پھلدار درختوں سے لدھا پھندا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ علاقے کا نظارہ کرتے ہوئے مٹور ہوئی سکول سے ہوتے مٹور بوہڑ چوک سے ہوتے نارہ کی طرف چل پڑے۔ میرہ سے نارہ کے درمیان ایک خاموش آتش فشاں سلسلے کے مٹکے نما پہاڑوں کا سلسلہ ہے جو بیور کی طرف جاتے دائیں جانب قطار اندر قطار دکھائی دیتا ہے، جس کی شروعات کلرسیداں کے موضع بڑالہ سے ہوتی ہے اور اس کا آخری سرا نارہ تک جاتا ہے۔ ایک اور قدرے کم بلند خاموش آتش فشانی سلسلہ کلر سیداں کے بلاکھر سے شروع ہوتا ہے اور تھوہا، مواڑا، آئیل راجگان سمبل، بگھار سے ہوتا کتھیل ہون میں جا اختتام پذیر ہوتا ہے۔ ان دونوں سلسلہ ہائے کوہ کے درمیان ایک کم طویل مگر چوڑا چٹیل سلسلہ بھی ہے جو بمنیال سے شروع ہوتا ہے، جو ایک طرف آئیل سے اور دوسری طرف سے بروٹھی کے مقام پر دونوں سلسلوں سے مل کر ایک کافی چوڑا سلسلہ ہائے کوہ بناتا ہوا برسالہ کے مقام پر برساتی نالے کے آس پاس کے علاقے میں اختتام پذیر ہوتا ہے۔ انہی آتش فشانی سلسلوں کی وجہ سے اس کے درمیانی علاقے مٹور میں انڈر گراؤنڈ پانی کا لیول بہت گہرائی میں ملتا ہے۔ اسی لیے مٹور کو پچھلی پون صدی سے پانی تھوہا خالصہ سے سپلائی کیا جاتا ہے۔ نارہ کے علاقے میں چونکہ یہ سلسلہ کوہ ختم ہو جاتا ہے اور وہاں برساتی نالوں کا ایک بڑا سلسلہ ہے اس لیے وہاں انڈر گراؤنڈ پانی کا لیول بہتر ہے۔ نارہ پہلے ایک چھوٹا سا قصبہ تھا، لیکن اب ایک شہر کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ سیر کرنے والوں کے لیے نارہ سے بیور اور آگے کروٹ ڈیم تک ڈے ٹرپ اور کیمپنگ کے لیے بہترین سپاٹس مل سکتے ہیں۔ یوں بھی یہ علاقہ ہریالی سے بھرپور ہے اور یہاں آم سمیت دیگر پھلوں کے باغات وافر مقدار میں ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں چیڑھ کے درخت بھی کافی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ تھوڑی دیر میں ہم نارہ کے نواحی علاقوں بٹلی، کھلول کی سرسبز و شاداب اونچی نیچے ڈھلوانی وادیوں سے گزرتے کلیاہ کے پاس سے ہوتے بیور جا پہنچے۔ بیور سے ہم نے واپس کہوٹہ کی طرف رخ کر لیا اور کٹھہ کی چڑھائی پر میڈم سوزوکی کو چڑھائی چڑھنے پر لگا دیا۔ کٹھہ ہل ٹاپ ریسٹورنٹ پر رک کر وہاں کی مشہور زمانہ دیسی دودھ کی دودھ پتی چائے پی، کیک کے ساتھ پکوڑے کھائے۔ ٹی بریک کے وقت سامنے دیکھا تو کشمیر کی گیہہ کی وادی دعوتِ نظارہ دے رہی تھی، لیکن ہم مسافروں نے واپس جانا تھا اس لیے، اللہ کا نام لے کر ہم ایک بار پھر کہوٹہ کی طرف عازم سفر ہو گئے۔ جیوڑہ کے بازار کا گول چکر کاٹ کر سوزوکی ہنیسر کے طرف گامزن ہو گئی۔ ٹپیالی، ٹھنڈا پانی، سے ہوتے دھپری پہنچے تو کہوٹہ شہر کی شروعات ہو گئیں۔ شہر کے اندر سے جانے کی بجائے ہم پنجاڑ چوک، کہوٹہ ہیلتھ سینٹر اور کلر چوک سے ہوتے لنگ دریا کے طرف چل پڑے، لنگ گویا کہوٹہ کا اختتامی ایریا ہے، اس سے آگے دریائے لنگ کو کراس کریں تو  اوپر جا کر دائیں ہاتھ نتھوٹ اور بائیں ہاتھ ہوتھلہ کے گاؤں آتے ہیں۔ وائی کراس سے ہوتے ہم جلد ہی ترکھیاں سے ہوتے علیوٹ کو پیچھے چھوڑتے پنیالی سے ہوتے آڑی سیداں جا پہنچے۔ آڑی سیداں پہنچ کر شہری زندگی کے نمونے دیکھ کر سحر انگیز سفر کی  گویا آنکھ کھل گئی اور میں حقیقی دنیا میں واپس آ گیا۔ اب یہاں کی ہریالی پہلے جیسی نہیں رہی تھی، بیچ بیچ میں شہری زندگی کے نمونے اور کہیں کہیں بے ہنگم ٹریفک دیکھ کر دل بیزار سا ہو گیا۔ چک کامدار سے ہوتے چکیاں سے محفوظ شہید روڈ پر ٹرن لیا تاکہ سہالہ کی بے ہنگم ٹریفک اور بدنام زمانہ ریلوے پھانٹک کے جان لیوا انتظار سے جان چھڑائی جا سکے۔ سواں برج کراس کر کے ہم جاپانی روڈ پہ ٹرن لے کر پرانے اسلام آباد ایئرپورٹ روڈ کی طرف جانے والے اسلام آباد ایکسپریس وے کے کورال انٹرچینج کی طرف گامزن ہو گئے۔ جاپانی روڈ پہ ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی اور ہم کوئی 20 منٹ میں کورال انٹرچینج سے ہوتے پرانے ایئرپورٹ روڈ پر مڑ گئے۔ اب شام ہونے کو تھی اور چھٹی کا دن تھا اور ٹریفک نہ ہونے کے وجہ سے جلد ہم رحیم آباد اور جھنڈا سے ہوتے پرانی ڈسٹرکٹ جیل کی جگہ بنائے گئے جناح پارک کے پاس جا رکے، جہاں پی ٹی سی ایل کا مستعد عملہ کھدائی میں مصروف تھا۔ پڑوس میں آرمی ہاؤس ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ وی وی آئی پی ایریا تھا اس لیے یہاں کا کام پہلے ہونا گویا شرطِ قرآنی تھی جس کی وجہ سے ہمیں اپنے فاتحہ خوانی کے ٹرپ کو صرف ڈے ٹرپ میں بدلنا پڑ گیا تھا۔ خیر نانی نے پہنچتے ہی اپنے تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے فالٹ تلاش کیا اور سوا گھنٹے میں لائن چالو کروا دی۔ کیوں نہ ہو، نانی آخر ماں کی ماں ہوتی ہے۔ خیر نانی نے ڈی صاحب کو کہا، میرا کم گیا جے مک تے تسی کرو ہن لینڈ فلنگ ٹارگٹ مکمل، تے میں ہن جلیا جے اللہ بیلی۔ یوں ہم دونوں خالہ زاد کچہری مال روڈ پشاور روڈ سے ہوتے آئی 13 پہنچ گئے۔ جہاں ماں جی کے ہاتھ کے پکے ہوئے مسحور کن خوشبو دار پکوان ہم بھوکے پیٹوں کا انتظار کر رہے تھے۔ سفری گرد و غبار سے چھٹکارا پانے کے لیے غسل کر کے ہم دونوں نے کھانا کھایا اور اپنے اپنے پورشن میں آرام کرنے چلے گئے، شاید پھر سے ایک بار پھر کسی پروگرام کو فائنل کرنے کے لیے۔
 

No comments:

Post a Comment