Pages

Sunday 24 July 2022

وادئ رمبلی آخرے کی تلاش کے لیے کیا گیا ایک سفری بلاگ

وادئ رمبلی آخرے کی تلاش کے لیے کیا گیا ایک سفری بلاگ

میرے اس سیلانیت کے بلاگ پاؤں کا چکر کے علاوہ شاعری کے چند بلاگز بھی ہیں۔ چند دن پہلے ایک شاعری پوسٹ کرنے سے پہلے ڈبل کنفرم کرنے کے لیے  جب میں ان کے ٹوئٹر پیج پر گیا تو مجھے ایک پیج پر آخرے نامی جنگلی پھل کی تصویر نظر آئی، انہیں دیکھ کر مجھے ماضی کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ واقعہ آپ سے بانٹنے سے پہلے میں آپ کو ذرا یہ بتا دوں کہ آخرے کیا ہوتے ہیں۔ آخرے شہتوت جیسا دانے دار لیکن شکل میں ٹوپی نما مگر سائز میں قدرے کم ہوتا ہے، اسے کچھ علاقوں میں مقامی کشمیری زبانوں میں آخرے، گلاچھے، گراچھے، گونچھ کہتے ہیں۔ پکا ہوا آخرے ذائقے میں میٹھا اور تاثیر میں ٹھنڈا ہوتا ہے لیکن کچا پھل کھٹا/ترش پن لیے ہوئے ہوتا ہے۔ سفر کے طرف واپس آتے ہیں، مجھے کرکٹ اور فٹبال کھیلنے کا شوق رہا ہے۔ شوق نے کبھی گرمی سردی کا احساس نہیں ہونے دیا لیکن انسانی جسم کی برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا کہ جون جولائی کی سخت گرمیوں میں دن کو کرکٹ اور شام کر فٹبال کے شوق نے جسم کو انتہائی ڈی ہائیڈریشن کا شکار کر دیا۔ پانی کی کمی اور سخت گرمی نے گردوں اور جگر پر اثر ڈالا۔ درد کی وجہ سے نیند نہ آتی تو رات رات بھر نیند نہیں آتی تھی، ڈاکٹر، حکیم اور ہومیو پیتھک ادویات آزما لیں لیکن کچھ افاقہ نہ ہوا۔ میرے بڑے بھائی صاحب ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے منسلک ہیں، وہ گلگت اور کشمیر کے اطراف میں آتے جاتے رہتے تھے، انہوں نے کوٹلی کے کسی مقامی حکیم سے میرے بارے بات کی، حکیم صاحب نے مجھے بنفس نفیس دکھانے کو کہا۔

Sunday 17 July 2022

جب کورونا کے دوران سیلانیت نے ایک بار پھر سے سر اٹھایا

جب کورونا کے دوران سیلانیت نے ایک بار پھر سے سر اٹھایا

سال 2019 کے اواخر میں پاکستان گیا تھا، اس کے بعد 2020 کے شروع میں کورونا نے ایسا سر اٹھایا کہ کہیں جانا ہی ممکن نہ ہو سکا۔ کبھی برطانوی حکومت کی جانب سے لگائی جانے والی سفری پابندیاں اور کبھی پاکستان میں کورونا کی وبا اور اس کے ڈر نے سیلانیت کو دبائے رکھا۔ سفر پر نہ جانے کی ایک اور وجہ بھی تھی، وہ تھی اسلامپورہ جبر گوجرخان سے تعلق رکھنے والے میرے برطانوی ہمسائے بھائی راجہ یعقوب اسی وبا کا شکار ہو گئے۔ پچھلے 20 سال سے ہمسائے ہونے کے ساتھ ساتھ وہ میرے گھر کے چوکیداری کا فرض بھی سرانجام بھی دیتے تھے، ان کی ناگہانی وفات کے بعد اور کورونا کے بعد سوشل لائف ختم ہونے کے باعث کوئی اور ایسا نہیں تھا جو میری عدم موجودگی میں گھر کی دیکھ بھال کرتا۔ اپریل 2022 میں والد صاحب کی بیماری کی خبر نے میرے اندر سوئی ہوئی سیلانیت کو ایک بار پھر سے جگا دیا۔ فیملی نے کہا کہ اس بار آپ اکیلے چلے جائیں اگر زیادہ رکنا پڑا تو پیچھے معاملات کو چلا لیں گے۔ کورونا کی وجہ سے جو سفری دستاویزات چاہیے تھیں، وہ تیار کروانے میں لگ گیا، شکر اللہ کا کہ ایک فون کال پر نیشنل ہیلتھ سروس نے ویکسینیشن سرٹیفیکیٹ بھجوا دیا۔ ٹکٹ ایک سال پہلے کا لیا ہوا تھا، جسے ہولڈ پہ ڈالا ہوا تھا، ٹریول ایجنٹ سے کہہ کر اس پہ نئی ڈیٹس ڈلوائیں۔ پاکستان پاس ٹریک ایپ انسٹال کی اور اپنے مندرجات اس میں ڈالے۔ ویسے تو میری پہلی آپشن پی آئی اے یا برٹش ائیرویز ہے لیکن قومی ائیرلائن پہ پابندی اور برٹش ائیرویز کے مہنگے ترین ٹکٹس کی وجہ سے میری طرح کے پیسے بچاؤ کفایت شعار لوگوں نے قدرے کم مہنگی عرب ائیرلائنز کی جانب رخ  کر لیا تھا۔ اگرچہ اب وہ بھی کورونا کی وجہ سے مہنگے ہو چکے تھے لیکن پھر بھی برٹش ائیر اور ورجن اٹلانٹک کے مقابلے میں ارزاں تھے۔ عرب ائیرلائنز کے سفر کا دورانیہ زیادہ ہوتا ہے، طویل دورانیے کے سفر کی وجہ سے میں نے زندگی میں پہلی بار صرف ہاتھ کا سامان لے جانے پر ہی اکتفا کیا۔ شاعر دوست زین صاحب نے بھی پروگرام بنا لیا، لیکن پھر کچھ وجوہات کی بنا پر ہم دونوں دوستوں کے سفر کی تاریخوں میں فرق آ گیا، جس کی وجہ  موصوف کا تازہ تازہ بائی پاس آپریشن بنا تھا جس کے لیے انہوں نے وہیل چیئر بک کروائی ہوئی تھی، میں نے سوچا پچھلی بار دبئی ائیرپورٹ بدنام زمانہ ٹاپ کلاس کی خجالت سے بچنے کے لیے کیوں نہ میں بھی ایسا ہی کر لوں چنانچہ میں نے بھی وہیل چیئر بک کروا لی۔