وادئ رمبلی آخرے کی تلاش کے لیے کیا گیا ایک سفری بلاگ
Sunday 24 July 2022
وادئ رمبلی آخرے کی تلاش کے لیے کیا گیا ایک سفری بلاگ
Sunday 17 July 2022
جب کورونا کے دوران سیلانیت نے ایک بار پھر سے سر اٹھایا
جب کورونا کے دوران سیلانیت نے ایک بار پھر سے سر اٹھایا
سال 2019 کے اواخر میں پاکستان گیا تھا، اس کے بعد 2020 کے شروع میں کورونا نے ایسا سر اٹھایا کہ کہیں جانا ہی ممکن نہ ہو سکا۔ کبھی برطانوی حکومت کی جانب سے لگائی جانے والی سفری پابندیاں اور کبھی پاکستان میں کورونا کی وبا اور اس کے ڈر نے سیلانیت کو دبائے رکھا۔ سفر پر نہ جانے کی ایک اور وجہ بھی تھی، وہ تھی اسلامپورہ جبر گوجرخان سے تعلق رکھنے والے میرے برطانوی ہمسائے بھائی راجہ یعقوب اسی وبا کا شکار ہو گئے۔ پچھلے 20 سال سے ہمسائے ہونے کے ساتھ ساتھ وہ میرے گھر کے چوکیداری کا فرض بھی سرانجام بھی دیتے تھے، ان کی ناگہانی وفات کے بعد اور کورونا کے بعد سوشل لائف ختم ہونے کے باعث کوئی اور ایسا نہیں تھا جو میری عدم موجودگی میں گھر کی دیکھ بھال کرتا۔ اپریل 2022 میں والد صاحب کی بیماری کی خبر نے میرے اندر سوئی ہوئی سیلانیت کو ایک بار پھر سے جگا دیا۔ فیملی نے کہا کہ اس بار آپ اکیلے چلے جائیں اگر زیادہ رکنا پڑا تو پیچھے معاملات کو چلا لیں گے۔ کورونا کی وجہ سے جو سفری دستاویزات چاہیے تھیں، وہ تیار کروانے میں لگ گیا، شکر اللہ کا کہ ایک فون کال پر نیشنل ہیلتھ سروس نے ویکسینیشن سرٹیفیکیٹ بھجوا دیا۔ ٹکٹ ایک سال پہلے کا لیا ہوا تھا، جسے ہولڈ پہ ڈالا ہوا تھا، ٹریول ایجنٹ سے کہہ کر اس پہ نئی ڈیٹس ڈلوائیں۔ پاکستان پاس ٹریک ایپ انسٹال کی اور اپنے مندرجات اس میں ڈالے۔ ویسے تو میری پہلی آپشن پی آئی اے یا برٹش ائیرویز ہے لیکن قومی ائیرلائن پہ پابندی اور برٹش ائیرویز کے مہنگے ترین ٹکٹس کی وجہ سے میری طرح کے پیسے بچاؤ کفایت شعار لوگوں نے قدرے کم مہنگی عرب ائیرلائنز کی جانب رخ کر لیا تھا۔ اگرچہ اب وہ بھی کورونا کی وجہ سے مہنگے ہو چکے تھے لیکن پھر بھی برٹش ائیر اور ورجن اٹلانٹک کے مقابلے میں ارزاں تھے۔ عرب ائیرلائنز کے سفر کا دورانیہ زیادہ ہوتا ہے، طویل دورانیے کے سفر کی وجہ سے میں نے زندگی میں پہلی بار صرف ہاتھ کا سامان لے جانے پر ہی اکتفا کیا۔ شاعر دوست زین صاحب نے بھی پروگرام بنا لیا، لیکن پھر کچھ وجوہات کی بنا پر ہم دونوں دوستوں کے سفر کی تاریخوں میں فرق آ گیا، جس کی وجہ موصوف کا تازہ تازہ بائی پاس آپریشن بنا تھا جس کے لیے انہوں نے وہیل چیئر بک کروائی ہوئی تھی، میں نے سوچا پچھلی بار دبئی ائیرپورٹ بدنام زمانہ ٹاپ کلاس کی خجالت سے بچنے کے لیے کیوں نہ میں بھی ایسا ہی کر لوں چنانچہ میں نے بھی وہیل چیئر بک کروا لی۔