Pages

Tuesday 14 July 2020

ساگری مانکیالہ میں شہر سے ہٹ کر ٹھکانہ بنانے کا پروگرام

ساگری مانکیالہ میں شہر سے ہٹ کر ٹھکانہ بنانے کا پروگرام
پچھلے سال پاکستان جانا ہوا تو راولپنڈی اسلام آباد میں دل نہیں لگا، جلد ہی شہر کی بے ہنگم آبادی اور بے لگام ٹریفک کی وجہ سے میرا دل اوبھ سا گیا۔ بڑے بھائی کی بیٹی کی شادی میں شرکت نہیں کر پایا تھا، پاکستان پہنچا تو بھتیجی کے سسرال مبارکباد دینے جانا ہوا۔ ان کا گھر روات کے نواح میں آبادی سے زرا ہٹ کر کلر روات روڈ کے پاس ساگری/مانکیالہ میں واقع ہے۔ یوں بھی میری بچپن سے عادت بن چکی ہے کہ میں جہاں جاتا ہوں وہاں کا علاقہ دیکھنے نکل جاتا ہوں۔ بھتیجی کے سسر جو رشتے میں ماں جی کے خالہ زاد لگتے ہیں، میں کافی عرصے بعد ان کے ہاں گیا تھا۔ انہوں نے کھانے کا کافی اہتمام کر دیا تھا، جب تک کھانا تیار ہوتا میں ماموں عابد کے ساتھ بائیک پہ علاقہ گھومنے نکل گیا۔ مانکیالہ سٹوپا دیکھنے کے بعد مجھے وہیں قریب میں ایک جگہ نئی نئی پلاٹنگ ہوتی دکھائی دی، تازہ تازہ بلڈوزر چلا کر جگہ کو ہموار کیا گیا تھا۔ یہ جگہ روات سے دو اڑھائی کلومیٹر کے سرکل میں واقع ہے۔ علاقہ شہر کے پاس ہونے کے باوجود ٹھیٹھ دیہاتی پرسکون ماحول سے بھرپور تھا۔ ماموں سے پلاٹنگ بارے پوچھا، پتا چلا کہ ان کے کسی دوست نے یہ کام شروع کیا ہے۔ میں ویسے ہی شہر کے قریب ترین دیہاتی ماحول والی جگہ دیکھ رہا تھا، ماموں کے ذریعے بات چلائی، اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ ماموں عابد کی وجہ سے جھٹ پٹ بات بن گئی اور میں نے تین دن میں سودا مکمل کر کے چند پلاٹ خرید لیے اور واپس یوکے آ گیا۔ واپس آیا تو ایک دن یو ٹیوب پہ اپنا ایک سابقہ کالج فیلو نظر آیا، ذوالکفل نامی دوست ایک عرصے سے بلڈنگ، پراپرٹی ڈیزائنگ اور ڈیویلپنگ کی فیلڈ میں کافی نام کما رہا ہے۔ اس سے رابطہ ہوا تو باتوں باتوں میں اس کی زبانی مجھے مجوزہ راولپنڈی رنگ روڈ کے بارے پتا چلا، سارا ماجرا جاننے کے بعد اس نے ہنستے ہوئے کہا کہ "جہاں جگہ لے بیٹھے ہو ممکن ہے وہ علاقہ نئے راولپنڈی رنگ روڈ کی حدود میں آ جائے، نہ بھی آئے تو روڈ اتنے قریب ضرور رہے گی کہ ٹریفک پلوشن کی وجہ سے جلد بھاگ جاؤ گے"۔ اور پھر دوست کی کہی بات سچ ثابت ہوئی۔

Saturday 11 July 2020

موہڑی کھٹڑاں کا ماما آصف جو کسی کو واقعی پیارا ہو گیا

موڑی کھٹڑاں کا ماما آصف جو کسی کو واقعی پیارا ہو گیا
ماما آصف نے شادی کی شروعات میں معاملات کو جس طرح چھپایا اس کے بالکل الٹ جب شادی کی شروعات ہوئیں تو ماما جی شادی سے پہلے ہی دلہا بنے چہکتے پھرتے دکھائی دیتے تھے۔ ان کا آبائی علاقہ موہڑی کھٹڑاں نزد قطبال/فتح جنگ/اٹک واقع ہے، یہ جگہ موجودہ نیو اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے بالکل پڑوس میں ایئر پورٹ کی ضرورت کے لیے بننے والے راما ڈیم کے بالکل ساتھ میں مغرب کی سمت میں واقع ہے۔ ماما آصف ملنے آئے اور کہنے لگے "خاندان کی خواہش ہے کہ شادی گاؤں میں ہو"، وہ  گاؤں میں شادی ہونے کی وجہ سے کچھ الجھے ہوئے تھے۔ میں نے کہا "یہ کوئی مسئلہ نہیں بلکہ سہولت ہے، ویسے بھی یہاں شہر میں گرمی ہے، گاؤں کے کھلے ڈلے ماحول میں موسم کی شدت کا احساس نہیں ہو گا۔ آپ ٹینشن مت لیں سارے ویسٹرج والے رشتے دار و احباب شادی میں بھرپور طریقے سے شرکت کریں گے، لیکن ہم صرف شادی اور ولیمے میں ہی شرکت کرنے آئیں گے"۔ ان کو بتایا کہ "ان دنوں فٹبال کی ڈسٹرکٹ چیمپین شپ ہونے جا رہی ہے اس لیے مائیوں اور مہندی جیسی گھریلو تقریبات آپ اپنے گاؤں والے رشتے داروں کے ساتھ منائیں، ویسے بھی یہ پرائیویٹ گیدرنگ ہوتی ہیں، ہم لونڈوں لپاڑوں کے لیے شجر ممنوعہ ہی سمجھیں"۔ ان کے ایک رشتے دار ملک شاہد کے پرنٹنگ پریس سے ان کی شادی کے کارڈ چھپوائے گئے، اور ماضی کے شرمیلے ماما آصف نے شرمیلے پن کی ایسی کی تیسی کر کے سارے رشتے داروں، محلے داروں اور دوست احباب میں خود کارڈ بانٹے۔

Friday 10 July 2020

موہڑی کھٹڑاں کے ماما آصف کی شادی کی تیاری پر مبنی بلاگ

موہڑی کھٹڑاں کے ماما آصف کی شادی کی تیاری پر مبنی بلاگ
ماما آصف جگت ماما ہیں، ہمارے محلے کے چند دوستوں کے رشتے میں ماما تھے لیکن بچہ ہو یا بڑا سبھی کے ماما مشہور ہو گئے۔ راولپنڈی میونسپل کارپوریشن میں ملازمت کرتے ہیں، نازک  مزاج اتنے تھے کی تیز ہوا چلتی تو انہیں کہنا پڑتا تھا "ماما جی جیب میں پتھر ڈال کر نکلا کریں کہیں تیز آندھی اڑا نہ لے جائے"، جان کم تھی لیکن غصے میں میٹر ہو جایا کرتے تھے۔ باقی احباب چھیڑ چھاڑ کر کے  ان کا ٹھیک ٹھاک حلیہ ٹائٹ کرتے لیکن میں ہمیشہ ان پہ ترس  کھا کر کوئی نہ کوئی اچھا مشورے دے دیا کرتا تھا، ان کو یہی کہا کرتا تھا کہ "ماما جی ایسی باتیں کنی سُنیا ای نہ کرو، نہ سُنسو تے نہ تپ چڑھسی، ڈھیٹ بن جائیں تبھی کام بنے  گا"۔ چند ماہ کی کوششوں کے بعد وہ مزاج ٹھنڈا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ کافی عرصے بعد ایک دن اچانک گراؤنڈ میں آ گئے، میں فٹبال کھیل کر، سپرنٹ ریس لگا کر پسینو پسینے ہوا بیٹھا تھا کہ ماما جی نے آن کندھا تھپتھپایا، سلام  کے بعد وہ مجھے روزمرہ کی بجائے کچھ زیادہ ہی شرمائے شرمائے سے لگ رہے تھے۔ ایسے لگتا تھا کہ جیسے کچھ کہنا چاہتے ہیں لیکن کہہ نہیں پا رہے، میں نے انہیں مشکل سے نکالنے کے لیے ہنگورا بھرا، ماما جی ہنگورا سن کر اور بھی شرما گئے۔ میں سمجھ گیا کوئی بہت بڑا پاکھنڈ ہے جو ماما جی منہ سے کچھ نہیں بول رہے۔ بالآخر میں نے پوچھ ہی لیا کہ "ماما جی خیر تو ہے، لاری کون سی دلدل میں پھنسی ہوئی ہے؟