Pages

Saturday 30 May 2020

نور آباد سے لے کر کہوٹہ تا تھوہا خالصہ تک کا سفری بلاگ

نور آباد سے لے کر کہوٹہ تا تھوہا خالصہ تک کا سفری بلاگ
وادئ نڑھ اور وادئ سوڑ کے سفر نے تھکا دیا تھا اور جس کے بعد رات کو بار بی کیو اور نیند کے بعد صبح کے جیپ  ڈرائیور کے گھر کے تگڑے ناشتے کے بعد میں نے اجازت چاہی کیونکہ مجھے احساس تھا کہ ان کے کسی قریبی رشتے دار کی تازہ تازہ مرگ ہوئی ہے اس لیے میرا چلا جانا ہی مناسب رہے گا۔ کامران سے اجازت چاہی، جیپ ڈرائیور کہنے لگا کہ "اسے پنجاڑ تک کسی کو اتارنے جانا ہے، واپسی پر جیپ اور آٹے کی چکی  کے لیے ڈیزل بھی لینا ہے اس لیے وہ مجھے ڈراپ دے دے گا"۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں، کامران سے رخصت ہو کر ہم چل پڑے۔ نور آباد  سورج کی روشنی میں چمک رہا تھا مجھے ایسے لگا جیسے  کہہ رہا ہو "شہری بابو ایک دن میں بھاگ لیے"۔ میں نے وعدہ کیا کہ "اے پہاڑو اور وادیو گواہ رہنا کہ میں ایک دوبارہ ضرور واپس آؤں گا"۔ کھوئیاں سے ایک بابا جی کو بٹھایا جنہیں کہوٹہ دوا لینے جانا تھا، آدھا گھنٹہ مسافت میں ہم لساں نامی  گاؤں سے ہوتے، اوسال سے گزر کر پنجاڑ پہنچ گئے، ڈرائیور کا شکریہ ادا کیا اور اس کے بچوں کے لیے تحفے کے طور پر کچھ رقم دی۔ میں اور بابا جی ایک خوبصورت سی جگہ پر بیٹھ کر گاڑی کا انتظار کرنے لگے۔ میں آس پاس کے نظاروں میں کھویا ہوا تھا کہ دیکھا ایک مزدا منی ٹرک ریورس ہو کر واپس آتا ہوا ہمارے پاس رک گیا، غور سے دیکھا تو ٹرک جانا پہچانا لگا، اتنے میں میرے بڑے بھائی شفیق اتر کے نیچے آئے میں نے اللہ کا شکر ادا  کیا کہ آج تو اس کی ذات نے سفر کے سارے بندوبست کیے ہوئے تھے۔ بھائی راولاکوٹ عمارتی شیشہ لے کر گئے تھے اور صبح صبح ہی واپسی ہو رہی تھی، میں اور بابا جی دونوں ٹرک میں بیٹھ کر کہوٹہ پنجاڑ چوک اتر گئے، بڑے بھائی  رخصت ہو کر راولپنڈی کی طرف چلے گئے۔ بابا جی کو ان کے کیلنک پہ چھوڑا اور کہوٹہ مین بازار میں واقع ماموں زاد ظفر اکبر کی ہارڈویئر دکان پر پہنچ گیا تاکہ اس سے ننھیالی گاؤں کی خیر خبر لیتا چلوں۔ میرا ارادہ تھا کہ خیر خبر لے کر یہاں سے ددھیالی علاقے تھوہا خالصہ کی طرف نکل جاؤں گا، لیکن ظفر نے بتایا کہ "گاؤں میں کسی کے ہاں فوتگی ہو گئی ہے، میری والدہ بھی ادھر جانے کے لیے  راولپنڈی سے آئی ہوئی ہیں اور ماموں زاد شاہد کے ریسٹورنٹ کے اوپر کے فلیٹ میں گاڑی کا انتظار کر رہی ہیں"۔

Thursday 28 May 2020

II پنج پیر راکس وادئ نڑھ و وادئ سوڑ کا ایک سفری بلاگ

 II پنج پیر راکس وادئ نڑھ و وادئ سوڑ کا ایک سفری بلاگ
ابھی ہم آدھا پونا گھنٹا ہی سوئے تھے کہ کامران کے بھائی آ گئے، ان سے ملے، انہوں نے مشورہ دیا کہ "اگر آپ نے صبح کہوٹہ جانا ہے تو کوشش کریں کہ پہلے نڑھ دیکھ آئیں اور وقت ہوا تو وادئ سِوّڑ چلے جائیے گا، میں آپ کی سہولت کے لیے جیپ لے آیا ہوں، ڈرائیور ساتھ جائے گا، جب تک آپ گھوم کے آئیں گے میں  کھانا تیار کر لوں گا"۔ ہم نے کہا کہ"کھانا پکانے کے تکلف کو رہنے دیں، ہم کہوٹہ سے کافی سارے تازہ چکن لائے تھے آپ مصالحے لگا کر رکھ دیں، واپس آ کر بار بی کیو کر لیں گے"۔ آپ کہیں گے کہ نڑھ کے بارے میں کوئی تعارف کیوں نہیں کروایا جبکہ آتے ہوئے نجانے کیوں سارے رستے کے علاقوں کے نام لکھ مارے؟ تو جناب یہ اس لیے کیا گیا کہ سیاحوں کے لیے سہولت رہے اور وہ اگر یہاں آنا چاہیں تو ان کے پاس تھوڑی بہت معلومات ہونی چاہییں۔ اب آپ کو نڑھ کے بارے میں کچھ معلومات بھی دیتے ہیں، نڑھ راولپنڈی اسلام آباد سے تقریباً 80 کلومیٹر کے فاصلے پر تحصیل کہوٹہ میں واقع ایک خوبصورت پرٖفضا پہاڑی مقام ہے، جہاں اچھے طاقتور انجن کی فور بائی فور گاڑی چاہیے ہو گی اور اچھے موسم میں وہاں پہنچنے میں دو سے اڑھائی گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔ نڑھ سطح سمندر سے قریباً 1980 میٹر/قریباً 6496  فٹ کی بلندی پر واقع ایک دلکش پہاڑی مقام ہے۔ چاروں جناب سے چیڑھ کے بلندوبالا درختوں میں گھرے دلکش سرسبز و شاداب پہاڑ جن کے درمیان سیاہی مائل سرمئی چٹیل چٹانیں و ٹیلے، آس پاس کا معطر و شاداب ماحول، مہکی ہوائیں، ٹھنڈے میٹھے چشمے، شور مچاتے، بل کھاتے مچلتے جھرنے، شفاف ندیاں، دلکش و پرفریب مناظر سے مزین آبشاریں ہم جیسے کنکریٹ کے جنگل کے باسیوں کو قدرتی ماحول کے سحر میں جکڑ لیتی ہیں۔ سفر بے شک تھکا دینے والا لیکن منزل پر پہنچیں تو روح تک سرشار ہو جاتی ہے۔ قدرتی حسن سے مالامال نڑھ  کی مشہور زمانہ فلک بوس چوٹی "پنچ پیر" سیاحوں کو دور سے دعوتِ نظارہ دیتے ہوئے کہتی ہے "پردیسی آ تو گئے ہو، اوپر کیسے پہنچو گے؟"۔

Wednesday 27 May 2020

I راولپنڈی تا وادئ نرڑھ کا خوبصورت سفری بلاگ کا

 I راولپنڈی تا وادئ نرڑھ کا خوبصورت سفری بلاگ کا
سکول سے کالج پہنچا تو گھر والوں نے سمجھا میں اب کچھ سُدھر جاؤں گا اور گاؤں جانے کا بھوت اتر جائے گا، لیکن جو بندہ سکول کے پابند ماحول میں نہ سدھر سکا وہ کالج کے فری ماحول میں کیسے ٹھیک ہو سکتا تھا۔ شوق اپنی جگہ لیکن میں نے اپنی نصابی معمولات میں کوئی کمی نہیں آنے دی، اس کی وجہ اپنا پڑھائی کا شوق اور گورڈن کالج کا اعلیٰ تعلیمی ماحول تھا، کالج میں میرا ایک نیا دوست بنا جس کا نام کامران ستی تھا، جو نڑھ کا رہنے والا تھا۔ اس نے اپنے علاقے کی اتنی تعریف کی کہ میں پہلی چھٹیاں آنے تک اپنا ویزہ لگوا چکا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے اس بار نڑھ اور اس کا مضافاتی علاقہ دیکھے بنا نہیں رہنا۔ کامران ہاسٹل میں رہتا تھا، ایک دو بار میری دعوت پر میرے ساتھ ویک اینڈ گزارنے میرے گھر آیا تو پھر دوستی اور پکی ہو گئی۔ جس دن چھٹیاں ہونی تھیں میں نے اپنا پروگرام ماں جی کو بتایا تو انہوں نے مسکرا کر اجازت دے دی۔ میں نے کالج جاتے ہوئے صرف نوٹ بک لی اور چھوٹے سے بیگ میں دو تین جوڑے کپڑوں کے رکھ لیے کیونکہ میرا ارادہ وہاں سے کہوٹہ، مواڑا اور تھوہا خالصہ کی طرف جانے کا تھا۔ آخری دن کچھ خاص پڑھائی نہیں ہوئی اور کالج جلدی ختم ہو گیا، گرمیوں کی شروعات کے دن تھے اور دن کافی طویل تھے، جیسے ہی آخری پیریڈ ختم ہوا ہم کالج کے پاس ہی ویگن اڈے سے بیٹھ کر کہوٹہ کی طرف نکل گئے، رستے میں ہمارے ویگن والوں کی کچھ عادات بد کا پتہ چلا جس میں ایک سیٹ پر چار کی بجائے زیادہ افراد کو بٹھا کر چند روپے مزید کمانے کی لالچ سے بڑی کوفت ہوئی، جس کی وجہ سے سہالہ سے بٹھائی جانے والی چند زنانہ سواریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، میں نے اور کامران نےاپنی سیٹیں دو بزرگ خواتین کو دیں اور خود چھلانگ مار کر ویگن کی چھت پر بنے سامان کے سٹینڈ پر بیٹھ گئے۔

Monday 25 May 2020

ایک لانجا جو بنا سب کا سانجھا؛ میرا ایک سفری بلاگ

ایک لانجا جو بنا سب کا سانجھا؛ میرا ایک سفری بلاگ
سیلانی کو محلے سے ہی خدمت خلق کا ایسا چسکا پڑا جو آگے چل کر ننھیال کا لانجا جو بنا سب کا سانجھا کی عملی تصویر بن کر رہ گیا۔ ساتویں آٹھویں تک پہنچا تو کھیل کود جس میں گلی ڈنڈہ ہو یا ہتھ چھڑائی، فٹبال، ہاکی، اتھلیٹکس اور پھر کرکٹ کی طرف راغب ہو گیا، جس کی وجہ سے قد و قامت میں بھائیوں سے بھی بہتر نکل آیا، ابا اکثر کہتے تھے “گاؤں میں ہوتا تو تجھے پہلوانی سکھاتا، روکھی سوکھی کھا کر بھی اچھا جسم بنایا ہے، دودھ گھی کھاتے تو اور پہلوان بنتے”۔ میں ہنس کے کہتا “میں دیسی پہلوانی سے باز آیا، اگر ٹِڈ نکالنے کا نام پہلوانی ہے تو مجھے اس کی ضرورت نہیں”۔ محلے بھر میں کسی کو ہسپتال جانا ہوتا تو میں پہلے حاضر ہوتا، چاہے دن رات وہیں رہنا پڑ جائے، دسویں کلاس میں ہمارے سکول میں ہلال احمر والوں کا ایک گروپ آیا، بلڈ ڈونیشن کے لیے ان کے ساتھ سکول کے بعد محلے والوں کے گھر گھر لے کر گیا، خود بھی خون دیا اور کئی اوروں سے بھی دلوایا۔ یہ سلسلہ کالج میں اور زیادہ پروان چڑھا۔ ابا جی نے میری ان عادات کی وجہ سے میرا نام “لانجا” بر وزنِ لانجہ رکھا ہوا تھا، کہ ہر ایمرجنسی میں “سپیئر ٹائر کی طرح حاضر رہتا تھا”۔ ہمارے محلے کا کچھ علاقہ نشیبی تھا جس میں برسات کے موسم میں عموماً سیلاب آ جایا کرتا تھا، میری کرکٹ و فٹبال ٹیمیں مشکل وقت میں سارے ایمرجنسی کے کام کرتیں، کسی کا سامان اٹھا کر اوپر چھت پر لے جانا، پانی کو گھروں کے اندر جانے سے روکنے کے لیے بوریوں میں مٹی و ریت بھر کر گھروں کو پانی سے بچانا جیسے کاموں میں پیش پیش رہتا تھا۔ کسی کی فوتگی ہو جاتی تھی تو ہمارے دو استاد تھے، استاد بیرُو اور حافظ منان، جو بھی حاضر ہوتا ان کے ساتھ فی سبیل اللہ قبریں کھودا کرتا تھا۔ کسی کی شادی ہوتی تو ولیمے کے انتظامات میں میری ٹیمیں اپنی خدمات پیش کرتیں تھیں۔

Saturday 23 May 2020

میں سیلانی کیسے بنا؟ میرا سفری بلاگ آپ سب کی نذر


میں سیلانی کیسے بنا؟ میرا سفری بلاگ آپ سب کی نذر
جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا کہ میں سیلانی طبع انسان ہوں؟ میرے جاننے والے آج بھی سوچتے ہیں کہ ایک شہر میں پیدا ہونے والے بچہ سیلانی یا گاؤں کی محبت میں کیسے گرفتار ہوا؟ آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا۔ میں ابھی سکول جانے کی عمر کو نہیں پہنچا تھا کہ انہی دنوں والدہ کی طبیعت خراب ہوئی اور مجھے میرے ننھیال بھیج دیا گیا تاکہ ممانی میری دیکھ بھال کر سکیں، بلکہ سچ یہی ہے کہ نانی اماں نے آرڈر دیا تھا کہ "بیٹی(ماں جی) اپنی دیکھ بھال بمشکل کر پاتی ہے اسے گاؤں بھیج دیں"، سو سب سے چھوٹی خالہ نظیر کو میری والدہ کی دیکھ بھال کے لیے شہر بھیج دیا گیا۔ خالہ کی ابھی شادی نہیں ہوئی تھی اس لیے میں انہیں تنگ کرتا تو گھر میں ٹینشن کا سا ماحول بن جاتا، ایسے میں نانی اماں نے میری ممانی کی ڈیوٹی لگائی کہ شہر تیمارداری کے لیے جائیں تو واپسی پر مجھے بھی ساتھ ہی لیتے آئیں، اس طرح ایک دن میں ننھیال پہنچ گیا۔ نانی گھر کے کام کم ہی کیا کرتی تھیں، سوائے دودھ بلونے اور مکھن نکالنے کے وہ اور کوئی کام کم ہی کرتی تھیں، ممانی ہی گھر کی آل ان آل تھیں، ان کی شادی کو کئی سال ہو چکے تھے مگر ابھی ان کے اولاد نہیں ہوئی تھی لیکن بچوں کو سنبھالنے کا فن خوب جانتی تھیں۔ میں ممانی کے ساتھ گاؤں پہنچا، کہاں گھر میں ماں کے سوا کوئی پوچھتا تک نہیں تھا اور کہاں اب سارے سر پر اٹھائے پھرنے لگے، یوں مجھے ایسا ماحول ملا جس میں میں رچ بس گیا۔ گاؤں کا صاف ستھرا و ماحول، بہترین نگہداشت کی وجہ سے مجھے گھر یاد تک نہیں آتا تھا، بس شام ہوتے ہی ماں جی کی یاد ستاتی تھی تو ممانی وقت نکال کر صبح صبح شہر لے کر جاتیں، ماں جی سے ملواتیں اور سہ پہر کو ساتھ ہی واپس لے آتیں کیونکہ نانی اماں کا یہی آرڈر تھا۔ اللہ نے کرم کیا اور 7 ماہ میں ماں جی ٹھیک ہو گئیں لیکن اس عرصے میں، مجھ جیسا شہری بچہ اب پکا پینڈو بن چکا تھا۔ میرے ننھیال میں قدم رکھنے کی دیر تھی ادھر ممانی کے ہاں بھی خوشی نے قدم رکھ دیا، اللہ نے انہیں بھی اولاد کی خوشی دینے کے آثار پیدا کر دئیے۔

Friday 22 May 2020

ٹیڑھی دم والا بھگوڑا سیلانی؛ میرا سفری بلاگ آپ کی نذر


ٹیڑھی دم والا بھگوڑا سیلانی؛ میرا سفری بلاگ آپ کی نذر
میں لڑکپن سے ہی ایک سیلانی طبع انسان رہا ہوں، پاکستان میں ہوتا تھا یا اب بھی جب بیرون ملک مقیم ہو تب بھی جب کبھی پاکستان جانا ہو تو شہر میں ایک دو دن گزارنے کے بعد اس سے اکتا کر گاؤں کی طرف نکل جانا لڑکپن سے عادت ثانیہ بن گئی ہے۔ شہر کا جم پل ہونے کے باوجود گاؤں کے قدرتی ماحول سے ایک انوکھی سی انسیت رہی ہے اور اب تک قائم ہے۔ زیادہ تر ننھیالی گاؤں جاتا تھا بلکہ اب بھی اکثر و بیشتر وہیں ہی جاتا ہوں، جانا ہوتا تو ایک دن کے لیے لیکن یہ ایک دن بعض اوقات ہفتے دس دن میں بدل جاتا، پھر ابا جی کو مجھے واپس بلوانے کے لیے یا تو خود آنا پڑتا یا دونوں بڑے بھائیوں میں سے کسی ایک کو گھر کی پولیس کا روپ دے کر روانہ کر دیا جاتا کہ "بھگوڑے کو حاضر کیا جائے"۔ ننھیالی گاؤں کا لاڈلہ تھا، بھائی آتے تو مجھے میری مخبر پہلے ہی خبر کر دیتے تھے اور میں بغیر ویزے کے ساتھ والے کسی گاؤں کو نکل جایا کرتا تھا، دوسرے گاؤں جانے کی وجہ بھائیوں کو چکمہ دینا ہوتا تھا یہ جو دو تین قریبی گاؤں میری پناہ گاہ بنتے تھے وہاں میری سگی خالاؤں کے گھر ہیں جنہیں سیلانی اپنی عارضی قیام گاہ بنا لیتا تھا، یہ الگ بات کہ پکڑے جانے کے بعد میں میری  خوب ٹھوک بجا کر گوشمالی کی جاتی تھی۔  یہ نہیں کہ گاؤں چھپ چھپا کر یا سکول سے بھاگ کر جایا کرتا تھا، بلکہ ایسا عموماً چھٹیوں میں ہی کیا کرتا تھا۔ چھٹیوں کو میں ذہنی و جسمانی تروتازگی کے لیے استعمال کیا کرتا تھا۔ ماشاءاللہ اچھا ذہین طالب علم تھا ساری زندگی کلاس کے بہترین طالب علموں میں شمار رہا لیکن بس  چھٹیوں کے کام کی ہمیشہ ڈنڈی مارا کرتا تھا، بلکہ بعض اوقات خود اساتذہ سے کہا کرتا تھا کہ "خدارا مجھے اس مشقت سے بچائیں، مجھے سے صفحے کالے نہیں ہوتے"۔ چونکہ اچھا طالب علم تھا، سکول کی غیر نصابی سرگرمیوں اور کھیلوں میں بھی حصہ لیتا تھا اس لیے میری اکثر اوقات ہوم ورک کی مشقت سے جان چھوٹ جایا کرتی تھی۔ بھائی پکڑ کر گھر لاتے تو اللہ بخشے ماں جی ہمیشہ یو این او بن کر مجھے بچا لیتی تھیں (نانا جان کا ہمشکل ہونا میرے بڑے کام آیا ہے، شکریہ نانا جی! آپ کو دیکھا تو نہیں مگر روز شیشے میں دیکھ کر 'تھینک یو' ضرور کہتا ہوں کہ اکثر آپ کی وجہ سے ماں جی مجھے "دشمن فورسز" سے بچا لیا کرتی تھیں۔

میں کون ہوں؟ کہاں سے ہوں؟ میرا قارئین سے تعارفی بلاگ

میں کون ہوں؟ کہاں سے ہوں؟ میرا قارئین سے تعارفی بلاگ
میں کون ہوں؟ آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کون خالی دماغ ہے جو پہلی پوسٹ میں ہی نجانے کس سے سوال کرتا پھر رہا ہے کہ میں کون ہوں؟ میرا آبائی گاؤں تھوہا خالصہ ہے، جیسے جیسے آپ بلاگ پر میری تحریریں پڑھتے جائیں گے، آپ مجھ سے آشنا ہوتے جائیں گے۔ ویسے بھی لکھاری اور قاری کے درمیان رشتہ دھیرے دھیرے بنتا ہے اور جو رشتہ دیر سے بنے وہ بڑا پائیدار ہوتا ہے، تو میں بھی چاہتا ہوں کہ میرا اور آپ کا تعلق دیرپا ہو۔ سیانے کہہ گئے ہیں کہ "سہج پکے سو میٹھا ہو" اس لیے تعلقات کو پکنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں، تب تک آپ قلم کی زبان سے مجھے جاننے کی کوشش کریں لیکن اس کے لیے آپ کو بلاگ پر آنا ہو گا، یقین مانیں شاعری، کہانی، سٹوری، مکالمے، آپ بیتیوں اور خیالات کے گھوڑوں کو ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ قارئین آپ جانتے ہیں کہ سوئٹزرلینڈ اور آسٹریا جیسے چھوٹے چھوٹے ممالک صرف ٹورازم سے اتنا کچھ کماتے لیتے ہیں جو پاکستان کے قومی بجٹ سے بھی کئی گنا زیادہ ہوتا ہے تو ہم پاکستانی ایسا کیوں نہیں کر سکتے، ہمارے پاس تو دنیا کے 5 پہاڑی سلسلے ہیں، قطبین کے باہر دنیا کے سب سے بڑے گلیشئرز، دلفریب و پر فضا وادیاں، قدرتی جھیلوں، ٹریکس، بہترین میدانی علاقے، ریگستانی سلسلے اور دنیا کا خوبسورت ترین ساحلی علاقے شامل ہیں۔ سب  سے بڑھ کر انگلش زبان کو سمجھنے والی کھلے دل والی عوام اور دنیا کے بہترین لذیذ کھانے موجود ہیں تو ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ ملک کے معاشی مسائل کا حل کرنے کے لیے ٹورازم کو فروغ دیا جائے۔ کچھ عرصہ پہلے ہم دوستوں نے ملک کی سیاحت کو فروغ دینے کے لیے ایک فیصلہ لیا تھا جو جہاں جہاں رہتا ہے وہ اپنے علاقے کی سیاحت کو فروغ دینے کے لیے وہاں کی ٹورسٹ اٹریکشنز جیسے اہم سیاحتی مراکز، آثار قدیمہ، مذہبی مقامات ، مقامی ورثے، لوکل رسومات اور علاقائی ثقافت سے متعلق جو جو معلومات  ہوں وہ اپنے اپنے بلاگ پر شیئر کریں تاکہ انہیں پڑھ کر دنیا بھر کے لوگ پاکستان کا رخ کریں، اس کے نتیجے میں پاکستانی معیشت بہتر ہو اور دنیا میں پاکستانی قوم کا اچھا تاثر دنیا میں اجاگر ہو۔ میں پاکستان اور پاکستانی نژاد صحافیوں، سوشل میڈیا صارفین، یوٹیوبرز، وی لاگررز، فوٹوگرافرز اور سیاحون سے درخواست کرتا ہوں کہ آئیے ہم سب مل کر پاکستان کا ایک مثبت چہرہ دنیا کے سامنے پیش کریں اور سیاحت کے فروغ میں اپنا کردار ادا کریں، یقین مانیں قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے۔ میں اپنے حصے کا کام کر رہا ہوں، اور اپنے بلاگز میں ایسے علاقوں کا تذکرہ کرتا ہوں جہاں جاتا ہے وہاں کے بارے کچھ نہ کچھ قلمبند ضرور کرتا ہوں تاکہ مجھ جیسے پردیسی جو بیرون ملک جا بسے ہیں ان کی پسند کا کچھ نہ کچھ مواد شامل کروں تاکہ وہ بھی اپنے وطن کو یاد رکھ سکیں۔ آپ بھی اپنے حصے کا کام کیجیۓ اور وہ دن دور نہیں جب ہم اپنے وطن میں سیاحت اور ٹورازم کے فروغ  کرنے میں اپنا حصہ ڈالنے میں  کامیاب ہو جائیں گے، ان شاءاللہ۔