نور آباد سے لے کر کہوٹہ تا تھوہا خالصہ تک کا سفری بلاگ
وادئ نڑھ اور وادئ سوڑ کے سفر نے تھکا دیا تھا اور جس کے بعد رات کو بار بی کیو اور نیند کے بعد صبح کے جیپ ڈرائیور کے گھر کے تگڑے ناشتے کے بعد میں نے اجازت چاہی کیونکہ مجھے احساس تھا کہ ان کے کسی قریبی رشتے دار کی تازہ تازہ مرگ ہوئی ہے اس لیے میرا چلا جانا ہی مناسب رہے گا۔ کامران سے اجازت چاہی، جیپ ڈرائیور کہنے لگا کہ "اسے پنجاڑ تک کسی کو اتارنے جانا ہے، واپسی پر جیپ اور آٹے کی چکی کے لیے ڈیزل بھی لینا ہے اس لیے وہ مجھے ڈراپ دے دے گا"۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں، کامران سے رخصت ہو کر ہم چل پڑے۔ نور آباد سورج کی روشنی میں چمک رہا تھا مجھے ایسے لگا جیسے کہہ رہا ہو "شہری بابو ایک دن میں بھاگ لیے"۔ میں نے وعدہ کیا کہ "اے پہاڑو اور وادیو گواہ رہنا کہ میں ایک دوبارہ ضرور واپس آؤں گا"۔ کھوئیاں سے ایک بابا جی کو بٹھایا جنہیں کہوٹہ دوا لینے جانا تھا، آدھا گھنٹہ مسافت میں ہم لساں نامی گاؤں سے ہوتے، اوسال سے گزر کر پنجاڑ پہنچ گئے، ڈرائیور کا شکریہ ادا کیا اور اس کے بچوں کے لیے تحفے کے طور پر کچھ رقم دی۔ میں اور بابا جی ایک خوبصورت سی جگہ پر بیٹھ کر گاڑی کا انتظار کرنے لگے۔ میں آس پاس کے نظاروں میں کھویا ہوا تھا کہ دیکھا ایک مزدا منی ٹرک ریورس ہو کر واپس آتا ہوا ہمارے پاس رک گیا، غور سے دیکھا تو ٹرک جانا پہچانا لگا، اتنے میں میرے بڑے بھائی شفیق اتر کے نیچے آئے میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ آج تو اس کی ذات نے سفر کے سارے بندوبست کیے ہوئے تھے۔ بھائی راولاکوٹ عمارتی شیشہ لے کر گئے تھے اور صبح صبح ہی واپسی ہو رہی تھی، میں اور بابا جی دونوں ٹرک میں بیٹھ کر کہوٹہ پنجاڑ چوک اتر گئے، بڑے بھائی رخصت ہو کر راولپنڈی کی طرف چلے گئے۔ بابا جی کو ان کے کیلنک پہ چھوڑا اور کہوٹہ مین بازار میں واقع ماموں زاد ظفر اکبر کی ہارڈویئر دکان پر پہنچ گیا تاکہ اس سے ننھیالی گاؤں کی خیر خبر لیتا چلوں۔ میرا ارادہ تھا کہ خیر خبر لے کر یہاں سے ددھیالی علاقے تھوہا خالصہ کی طرف نکل جاؤں گا، لیکن ظفر نے بتایا کہ "گاؤں میں کسی کے ہاں فوتگی ہو گئی ہے، میری والدہ بھی ادھر جانے کے لیے راولپنڈی سے آئی ہوئی ہیں اور ماموں زاد شاہد کے ریسٹورنٹ کے اوپر کے فلیٹ میں گاڑی کا انتظار کر رہی ہیں"۔