قلعہ ڈیرا منڈھول پونچھ کے کھنڈرات اور ہجیرہ کا سفری بلاگ
بارل قلعے کی یاترا سے واپسی کے چند دن بعد تک تو گھر میں ہی خوف مصروفیت رہی۔ ایک دن مجھے میرے سکول کے زمانے کے ایک دوست سخاوت راٹھور کی جانب سے ان کے چھوٹے بھائی کی شادی میں شرکت کا دعوت نامہ ملا جو ہجیرہ ضلع پونچھ میں ہونا قرار پائی تھی۔ کل ملا کر دو دن کا ٹور بن رہا تھا سوچا کیوں نہ آرکیالوجسٹ دوست آصف کو بھی ساتھ لیتا جاؤں، یوں بھی ہجیرہ سے منڈھول زیادہ دور نہیں، منڈھول وہ جگہ ہے جہاں پر ڈیرا منڈھول قلعہ کے کھنڈرات موجود ہیں، جو آصف کی دلچسپی کا باعث بن سکتے تھے۔ یہی سوچ کر آصف کو فون کیا اور اس سے اس کی مصروفیتات کے بارے میں دریافت کیا، اس نے بتایا کہ اس کی کوئی خاص مصروفیت نہیں ہے، میں نے کہا پھر ایسا کرو کہ ایک بیگ میں دو جوڑے ڈالو اور فوراً میرے پاس پہنچے کا سوچو، موقع بن رہا ہے کہ راستے تمہیں ڈیرا منڈھول قلعے کے کھنڈرات دکھا لاؤں۔ ساتھ میں اسے پہلے ہی وارننگ دے دی کہ اسے لاہور کا لال قلعہ مت سمجھ لینا، یہ تو گرتا ہوا چوکی نما بچہ قلعہ ہے جو کہ سرحدی نگرانی کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔ تمہاری آرکیالوجی کی رگ کو بھی سکون مل جائے گا اور ساتھ ساتھ وادئ پونچھ کے اس دور افتادہ حسین ترین خطے کی سیر کرنے کا نادر موقع بھی ملے گا۔ اس کے علاوہ ہجیرہ میں ایک عدد کشمیری شادی کے لذیذ دیسی کھانوں کا بھی ذائقہ ٹیسٹ کروا دوں گا۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں، شام ہونے سے پہلے ہی آصف میرے پاس آن پہنچا۔ سفر پر کیسے جانا ہے یہ طے کر کے ہم دونوں رات کا کھانا کھا کر سفری بیگ تیار کر کے سونے کے لیے کمرے میں آ گئے۔