Pages

Tuesday 13 December 2022

قلعہ ڈیرا منڈھول پونچھ کے کھنڈرات اور ہجیرہ کا سفری بلاگ

 قلعہ ڈیرا منڈھول پونچھ کے کھنڈرات اور ہجیرہ کا سفری بلاگ

بارل قلعے کی یاترا سے واپسی کے چند دن بعد تک تو گھر میں ہی خوف مصروفیت رہی۔ ایک دن مجھے میرے سکول کے زمانے کے ایک دوست سخاوت راٹھور کی جانب سے ان کے چھوٹے بھائی کی شادی میں شرکت کا دعوت نامہ ملا جو ہجیرہ ضلع پونچھ میں ہونا قرار پائی تھی۔ کل ملا کر دو دن کا ٹور بن رہا تھا سوچا کیوں نہ آرکیالوجسٹ دوست آصف کو بھی ساتھ لیتا جاؤں، یوں بھی ہجیرہ سے منڈھول زیادہ دور نہیں، منڈھول وہ جگہ ہے جہاں پر ڈیرا منڈھول قلعہ کے کھنڈرات موجود ہیں، جو آصف کی دلچسپی کا باعث بن سکتے تھے۔ یہی سوچ کر آصف کو فون کیا اور اس سے اس کی مصروفیتات کے بارے میں دریافت کیا، اس نے بتایا کہ اس کی کوئی خاص مصروفیت نہیں ہے، میں نے کہا پھر ایسا کرو کہ ایک بیگ میں دو جوڑے ڈالو اور فوراً میرے پاس پہنچے کا سوچو، موقع بن رہا ہے کہ راستے تمہیں ڈیرا منڈھول قلعے کے کھنڈرات دکھا لاؤں۔ ساتھ میں اسے پہلے ہی وارننگ دے دی کہ اسے لاہور کا لال قلعہ مت سمجھ لینا، یہ تو گرتا ہوا چوکی نما بچہ قلعہ ہے جو کہ سرحدی نگرانی کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔ تمہاری آرکیالوجی کی رگ کو بھی سکون مل جائے گا اور ساتھ ساتھ وادئ پونچھ کے اس دور افتادہ حسین ترین خطے کی سیر کرنے کا نادر موقع بھی ملے گا۔ اس کے علاوہ ہجیرہ میں ایک عدد کشمیری شادی کے لذیذ دیسی کھانوں کا بھی ذائقہ ٹیسٹ کروا دوں گا۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں، شام ہونے سے پہلے ہی آصف میرے پاس آن پہنچا۔ سفر پر کیسے جانا ہے یہ طے کر کے ہم دونوں رات کا کھانا کھا کر سفری بیگ تیار کر کے سونے کے لیے کمرے میں آ گئے۔

Sunday 11 December 2022

سدھنوتی اور وادئ پلندری کے متعلق کچھ معلومات پر مشتمل بلاگ

 سدھنوتی اور وادئ پلندری کے متعلق کچھ معلومات پر مشتمل بلاگ

بارل قلعہ پلندری سدھنوتی رودادِ سفر سے جڑی اگلی داستان آوارہ گردی حاضر خدمت ہے، جسے ایک دوست کی خواہش پر آگے بڑھ رہا ہوں۔ آزاد کشمیر کی سابقہ ریاست اور موجودہ ضلع سدھنوتی کے صدر مقام پلندری شہر کے بارے میں کافی سفرناموں میں ذکر کر چکا ہوں۔ ایک دوست نے درخواست کی ہے کہ یہاں کے بارے میں مزید معلومات قلم بند کروں تاکہ ان جیسے احباب جو وہاں جانا چاہیں ان کے لیے ان کی دلچسپی کا کوئی نہ کوئی پہلو نکل سکے۔ ضلع سدھنوتی کے صدر مقام پلندری شہر کو آزاد ریاست جموں و کشمیر کا ابتدائی صدر مقام ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، جہاں جنجال ہل کے بلند مقام پر عارضی طور سرکاری دفاتر قائم کیے گئے تھے۔ آزاد کشمیر کا پہلا ریڈیو سٹیشن بھی تڑاڑکھل کے مقام پر بنایا گیا تھا۔ ضلع سدھنوتی اپنے پہاڑوں سے مزین خوبصورتی کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔ پلندری آزاد کشمیر کے ضلع سدھنوتی کا ضلعی ہیڈکوارٹر بھی ہے۔ پلندری ضلع راولپنڈی کی تحصیل کہوٹہ کے مشرق میں دریائے جہلم کو کراس کر کے پہلا شہر بنتا ہے۔ دریا سے چند کلومیٹر کے فاصلے واقع معتدل آب و ہوا سے بھرپور شہر پلندری راولپنڈی اور اسلام آباد سے 93 کلومیٹر کے فاصلے پر آباد ہے۔ پلندری کا زیریں حصہ سطح سمندر سے قریباً تین ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے، جبکہ پلندری شہر کی بلندی ساڑھے چار ہزار فٹ ہے۔ یہاں کا بلند ترین مقام ناگیشرہے، ناگیشر کی وجہِ تسمیہ یہ ہے کہ یہ نام ناگ (بمعنی چشمہ) اور ایشور (بمعنی خدا) سے مل کر بنا ہے جس کے معنی ہیں ایشور(خدا) کا چشمہ، ناگیشر تڑارکھل کے قریب واقع ہے۔ ناگیشر قریباً سات ہزار فٹ پہاڑوں پر مشتمل خوبصورت چوٹی ہے۔ پلندری جو سدھنوتی کا صدر مقام ہے وہ چاروں طرف سے بلند و بالا پہاڑوں کے درمیان گھری چھوٹی چھوٹی وادیاں سے بھرپور حسین آزماجگاہ  ہے جہاں ہر طرف پہاڑی چشمے، جھرنے، جھیلیں اور انواع و اقسام کے پھلدار درخت اور چیڑ کے قدرآور اشجار شامل ہیں جو اس کی قدرتی خوبصورتی کو دوبالا کرتے ہے۔

Wednesday 7 December 2022

بارل قلعہ پلندری سدھنوتی روداد سفر پر مشتمل بلاگ

 بارل قلعہ پلندری سدھنوتی رودادِ سفر پر مشتمل بلاگ

گورڈن کالج کے زمانے کے کلاس فیلو اور حال کے آرکیالوجسٹ دوست آصف کا واٹس ایپ میسج ملا کہ اگلی بار آؤ تو بارل قلعہ کو دیکھنے جائیں گے۔ میں نے بتایا کہ ان شاء اللہ مئی جون میں آنے کا پروگرام ہے، لیکن اس بار تمہیں بارل میں میرے ساتھ کم از کم  ایک رات رکنا ہو گا کیونکہ وہاں کے میرے کچھ رشتے دار میرے منتظر ہوں گے جو کہ ہر بار گلہ کرتے رہ جاتے ہیں کہ تم ہمیں ہم سے کنی کترا جاتے ہو، اس لیے اس سفر میں رشتے داروں کا رانجھا بھی راضی کرنا ہو گا اور آصف دونوں کی خواہشات بیک وقت پوری کرنا ہوں گی۔ آصف تو جیسے انتظار میں بیٹھا اور فوراً مان گیا، میں نے ماں جی کے خالہ زاد، میرے رشتے کے ماموں عزیز عرف بابو جی تک اطلاع پہنچا دی کہ اس بار آپ کا گلہ دور کرنے بارل آ رہا ہوں۔ چلیں لگے ہاتھ آپ کو کچھ قلعہ بارل کے بار میں بھی بتاتا چلوں۔ بارل قلعہ آزاد جموں و کشمیر کے ضلع سدھنوتی میں بارل کے مقام پر واقع ہے۔ بارل قلعہ سرسبز و شاداب جنگلات کے وسط میں پہاڑوں کے درمیان ایک اونچی پہاڑی چوٹی پر بنایا گیا تھا جس کا رقبہ تین کنال ہر محیط ہے، اس سے تھوڑے سے فاصلے پر یہاں بارل کا شہر نما قصبہ آباد ہے۔ آزاد کشمیر کے دیگر قلعوں کی طرح مناسب دیکھ بھال نہ ہونے، موسمی اور قدرتی آفات کے باوجود یہ قلعہ بھی کھنڈرات پر مشتمل ہے۔ لیکن دیکھا جائے تو اس کے خالقوں کو داد دینا پڑتی ہے، محل و وقوع کے اعتبار سے اس کی دفاعی اہمیت مسلم ہے۔ اس کے شمال میں ضلع سندھنوتی کا صدر مقام پلندری، جنوب میں ضلع کوٹلی کی تحصیل سہنسہ، مشرق میں بلوچ بیٹھک اور مغرب میں اٹکورہ/ہولاڑ کے علاقے واقع ہیں۔ قلعہ بارل کی تعمیر میں جو پتھر استعمال کیا گیا ہے بقول بابو عزیز کے اسے قریبی سہر نالہ سے لایا گیا تھا۔ سرخ مٹی/ریتی، چونا پنیالی نالے اور بن نالے سے لائے گئے تھے۔ قلعے کا سنگ بنیاد 1610 میں اس وقت کے نواب آف سدھنوتی سردار سعید خان سدوزئی نے رکھا تھا، یہ وہی سدھن سردار ہیں جنہوں نے قلعہ بھرنڈ بھی تعمیر کروایا تھا اور تھروچی قلعے میں بھی چند اضافی تعمیرات کروائیں تھیں۔ ڈوگرہ راج میں 1837 ميں مہاراجا گلاب سنگھ کے دور ميں یہاں کچھ اضافی تعمیرات بھی کی گئیں تھیں۔ بارل قلعہ کی کچھ عمارات تو قدرے بہتر حالت میں ہیں لیکن کافی ساری عمارتيں محکمۂ آثار قدیمہ کی بے رحم پالیسی اور موسموں کی سختی کا شکار نظر آتی ہے۔ قلعہ بارل دیگر قلعوں کی طرح آج بھی منتظر ہے کہ کوئی درد رکھنے والا مسیحا آئے اور اسے ماضی کی عظمت رفتہ کی طرح آباد کرے۔

Monday 21 November 2022

قلعہ آئن کا ماضی میں کیا گیا ایک سفر پر مشتمل بلاگ

 قلعہ آئن کا ماضی میں کیا گیا ایک سفر پر مشتمل بلاگ

قلعہ گردی کے سلسلے کی ایک گمشدہ کڑی جسے میں نے قلمزد تو کیا لیکن کسی وجہ سے یا تو یہ پوسٹ ڈیلیٹ ہو گئی یا میں خود ہی اسے پوسٹ کرنے سے چوک گیا۔ چلیں اس سفر کی یاد تازہ کرتے ہیں تاکہ اس مسنگ لنک کو دوبارہ سے جوڑا جائے۔ اس سفر میرے علاوہ میرے خالہ زاد سعید، ان کے دوست ظہور اور میرے اس وقت کے کالج کے دوست آصف بھی میرے ہمراہ تھے۔ میں نے اور آصف نے راولپنڈی سے کہوٹہ تک الگ سفر کیا جبکہ سعید اور ظہور دونوں مندرہ سے براستہ کاک پل سے ہوتے کہوٹہ پہنچے تھے۔ اور پھر وہاں سے ہم چاروں اکٹھے کہوٹہ کوٹلی روڈ سے ہوتے گیہہ گاؤں گئے تھے۔ چونکہ اس وقت کا چھے چھن روڈ بہت بری حالت میں تھا اور وہ والا راستہ طویل ہونے کی وجہ سے ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ کروٹ پل پر اتر کر وہاں سے دریائے جہلم کے آزاد جموں و کشمیر سائیڈ والا پیدل رستہ اختیار کیا جائے۔ ہوا یوں کہ گھر سے چلتے ہوئے ہماری ٹائمنگ گڑ بڑ ہو گئی، آصف کو کسی وجہ سے گھر سے نکلتے ہوئے دیر ہو گئی، مجھے کچہری میں اس کا طویل انتطار کرنا پڑا۔ وہاں سے ہم دونوں کہوٹہ پہنچے تو پتہ چلا کہ صرف ہم ہی نکمے نہیں نکلے بلکہ مندرہ والی جوڑی سعید اور ظہور تو ہم سے بھی ڈھلے نکلے، یہاں تک کہ ہم دونوں کو کہوٹہ میں انتظار کرتے کرتے ڈیڑھ گھنٹہ بیت گیا، خیر جس وقت یہ دونوں کہوٹہ پہنچے تو کافی دن بیت چکا تھا جس کی وجہ سے ہمیں قلعہ آئن تک جا کر اسی دن واپس آتے کا پروگرام کینسل کرنا پڑ گیا۔ کہوٹہ سے ہم نے طے کیا کہ اب ہم پہلے گیہہ گاؤں جائیں گے، رات وہاں ٹھہریں گے اور صبح ناشتہ کر کے واپسی میں داخ نالہ کی مخالف سمت سے ہوتے ہوئے دریائے جہلم کے ساتھ ساتھ چلے ہوئے آئن قلعے کی طرف جائیں گے۔ کہوٹہ سے ہوتے ہوئے ہم چاروں کروٹ پل پر اترے، اور وہاں سے دریائے جہلم کے ساتھ والے پیدل رستے سے ہوئے ہوئے تل گاؤں کے رستے گیہہ گئے تھے، تل سے داخ اور گیہہ کے سفر کو طوالت کی وجہ سے مختصر کرتا ہوں، خیر عصر کے وقت ہم سب بھائی تصدق کے ہاں گیہہ پہنچے اور رات وہیں قیام کیا۔

Sunday 20 November 2022

تھروچی قلعہ گلپور کوٹلی کا روڈ ٹرپ پر مشتمل بلاگ

 تھروچی قلعہ گلپور کوٹلی کا روڈ ٹرپ پر مشتمل بلاگ

چند سال پہلے جب مجھے والدہ مرحومہ کے سانحۂ ارتحال کے موقع پر پاکستان جانے کا اتفاق ہوا۔ والدہ کی رحلت کے بعد کم و بیش دو ہفتے تو بے حد مصروفیت رہی، والدہ کے بغیر خالی گھر کاٹ کھانے کو دوڑتا تھا۔ انہی دنوں میں گورڈن کالج کے زمانے کے کلاس فیلو اور حال کے آرکیالوجسٹ دوست آصف کو والدہ کی وفات کی خبر ملی تو وہ بھی فاتحہ خانی کے لیے تشریف لائے، یہ وہ دوست ہیں جن کے ساتھ ماضی میں قلعہ آئن نزد ہولاڑ، کوٹلی، قلعہ سنگنی قلعہ نزدکلرسیداں، راولپنڈی اور اس کے بعد بھروٹہ قلعہ نزد پوٹھہ کوٹلی کے چند ٹرپس پر جا چکا تھا۔ باتوں باتوں میں موصوف نے مجھے ماحول بدلنے کا مشورہ دیا، ان کا کہنا تھا کہ مجھے ایک دن کے لیے ہی سہی کہیں باہر گھومنے جانا چاہیے تاکہ والدہ کی وفات کے صدمے کے اثر سے نکلا جائے اور یوں بھی کشمیر جیسے قدرتی ماحول سے بہتر کوئی مقام نہیں ہو سکتا تھا۔ ویک اینڈ پر ابھی رشتے داروں اور احباب کا باقاعدگی سے آنا جانا لگا رہتا تھا اس لیے ہم دونوں نے ویک ڈیز میں پروگرام بنایا کہ کیوں نہ اس بار تھرو چی قلعے کا ڈے ٹرپ لگانا چاہیے، ایک تو وہ گلپور کے مقام سے زیادہ دور نہیں ہے اور دوسرا ہم شام تک آرام سے وہاں سے ہو کر واپس گھر پہنچ جائیں گے۔ ہم دونوں آپس میں باتیں کر رہے تھے تو خالہ زاد انصر بھی پاس بیٹھا ہماری باتیں سن رہا تھا، اس نے بتایا کہ وہ آپ کل پی ٹی سی ایل کی طرف سے وی وی آئی پی ایمرجنسی ڈیوٹی پر آن کال ہے۔ اس نے مشورہ دیا کہ آپ دونوں صبح میرے ساتھ چلے چلیں، مجھے کل ویسے بھی چڑھوئی آزاد کشمیر جانا ہے، میں گلپور تھروچی تک آپ کو ڈراپ دے دوں گا، آپ اپنا ٹرپ لگا لینا اور اگر میرا کام جلد مکمل ہو گیا تو واپسی پر بھی آپ کو ساتھ لیتا آؤں گا۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھوں، پروگرام یہی طے ہوا کہ آصف رات میرے پاس ہی ٹھہرے گا، یوں ہم صبح صبح ناشتے کے بعد تھروچی کے لیے نکل جائیں گے۔ سب طے کر کے آصف بائیک پر اپنا کٹ بیگ اور فوٹوگرافی کا سامان لینے مری روڈ نکل گیا، شام کو جب وہ واپس آیا تو ہم کھا کھا کر سفر کا ارادہ کر کے رات جلدی سو گئے۔

Tuesday 18 October 2022

قلعہ بھرنڈ/قلعہ برہوٹہ سہنسہ کوٹلی آزاد کشمیر کا ایک ڈے ٹرپ

 قلعہ بھرنڈ/قلعہ برہوٹہ سہنسہ کوٹلی آزاد کشمیر؛ ڈے ٹرپ

چند سال پہلے مجھے میرے سابق کالج فیلو اور حال کے آرکیالوجسٹ دوست آصف کا سکائپ پہ میسج ملا، میسج کا لب لباب یہ تھا کہ میں کب پاکستان آ رہا ہوں، کیونکہ موصوف کا اپنے جونیئرز کے ساتھ قلعہ بھرنڈ جانے کا پروگرام بن رہا تھا۔ میں پہلے بھی ایک بار قلعہ بھرنڈ جا چکا تھا اور اس کا تذکرہ اس تاریخی عمارتوں کے شوقین دوست سے کیا تھا، جس پر اس نے کہا تھا کہ جب ہمارا کوئی پروگرام بنا تو تم چونکہ اس علاقے سے تعلق رکھتے ہو اس لیے تم بھی ساتھ چلو گے۔ میں نے آصف کو بتایا کہ ہر سال کی طرح ان شاءاللہ میں مئی تا اگست کے درمیان کسی وقت آؤں گا، جیسے ہی پہنچتا ہوں جناب کی خواہش پوری کر دی جائے گی اور آپ کو قلعہ بھرنڈ دکھا دیا جائے گا۔ میں آصف کے ہمراہ کافی عرصہ پہلے آزاد کشمیر کے ہولاڑ اور آزاد پتن کے درمیان واقع قلعہ آئن کو دیکھ چکا تھا اور اس کے کچھ عرصہ بعد راولپنڈی کلر سیداں میں واقع قلعہ سنگنی دیکھنے بھی جا چکا تھا۔ گو کہ قلعہ سنگنی جانے کا پروگرام اچانک بنا تھا اس لیے وہاں ہم دونوں ہی گئے تھے، جبکہ قلعہ آئن جاتے وقت میرے دو عدد کزن بھی ہمراہ تھے۔ گو کہ موصوف قلعہ آئن جاتے وقت اپنے کچھ جونیئرز کو لے جانے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن چونکہ شہری جوانوں میں دشوار گزار پہاڑی رستوں پر چلنے کا تجربہ نہیں ہوتا تو اس بنا پر کہ شاید وہ 15 کلومیٹر کا دشوار گزار فاصلہ نہ طے کر سکیں اس لیے انہیں آخر میں ڈراپ کر کر دیا گیا تھا۔ لیکن چونکہ اس بار بھرنڈ قلعہ جانے کا پروگرام تھا، جو کہ مین کوٹلی راولپنڈی روڈ سے زیادہ فاصلے پر واقع نہیں تھا اس لیے میں نے انہیں جن جن کو شوق تھا قلعہ سر کرنے کا ان سب کو قلعہ دیکھنے کی دعوت بھی دے دی تھی۔ آپ کو بتاتا چلوں کہ قلعہ بھرنڈ موضع بھرنڈ نزد پوٹھہ، تحصیل سہنسہ ضلع کوٹلی آزاد کشمیر میں مین کوٹلی راولپنڈی روڈ کے شمال مشرق سمت میں چند فرلانگ کے فاصلے پر ایک پہاڑی کی چوٹی پر تعمیر کیا گیا ہے۔ جہاں یہ قلعہ تعمیر کیا گیا ہے وہاں قرب و جوار میں کبھی برہوٹہ نامی گاؤں بھی آباد تھا، اس لیے اسے قلعہ برہوٹہ بھی کہا جاتا ہے۔ قلعہ بھرنڈ کی تعمیر 1610 میں سدھنوتی کے اس وقت کے حکمران سردار سعید خان سدوزئی نے شروع کروائی تھی۔ قلعے کی تعمیر کا مقصد یہ تھا کہ موجودہ ضلع سدھنوتی (اس وقت کے ضلع پونچھ) میں قائم سدھن سلطنت کو ڈوگرہ راج کے حملوں سے محفوظ کیا جا سکے۔ سردار سعید خان سدوزئی نے حفاظتی مقصد کے لیے اسی قلعے کے شمالی سمت میں 7 میل کے فاصلے پر بارل کے مقام پر بھی ایک اور قلعہ تعمیر کروایا گیا تھا۔

Sunday 16 October 2022

مندرہ تھوہا بیور کہوٹہ فاتحہ خوانی ٹرپ جو روڈ ٹرپ میں بدل گیا

 مندرہ تھوہا بیور کہوٹہ روڈ ٹرپ

آج بڑے بھائی کے بیٹے کا ولیمہ تھا اور خالہ زاد انصر سے بات ہو رہی تھی کہ باتوں باتوں میں اس کے ہمراہ کیا گیا ایک روڈ ٹرپ یاد آ گیا، چلیے آپ سے اس روڈ ٹرپ کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ ایک بار جب میں پاکستان گیا تو خالہ زاد انصر ہی مجھے ایئرپورٹ لینے کے لیے آیا، وہ اس وقت میرے اسلام آباد والے گھر کے ایک پورشن میں ہی رہائش پذیر تھا۔ اس کی اور اس سے چھوٹی خالہ زاد دونوں کی پیدائش بھی ہمارے گھر پہ ہوئی تھی۔ ایک طرح سے اس کی عمر کا ایک بڑا حصہ ہمارے گھر ہی گزرا تھا اور دوست احباب اسے ہمارا حقیقی بھائی ہی گردانتے تھے۔ بقول ابا جی کے وہ ہمارے لیے ان کی فوجی اصطلاح میں پچیسویں گھنٹے کا کام کرتا تھا یعنی ہمہ وقت مدد کے لیے تیار ملتا تھا۔میں صبح صبح اسلام آباد پہنچا، شام تک محلے داروں اور اقرباء کے ہاں ہونے والی فوتگیوں سے فارغ ہوا تھا کہ انصر پی ٹی سی ایل کی جاب سے چھٹی کر کے واپس گھر آ گیا۔ چائے پہ اکٹھے ہوئے تو چونکہ اگلے دن چھٹی تھی اس لیے ہم دونوں خالہ زاد کا یہ پروگرام طے ہوا کہ ہم کل صبح ناشتہ کر کے مندرہ، کلر، تھوہا، مواڑہ، جنجور کا ایک ڈے ٹرپ لگائیں گے، جس کا مقصد وہی فوتگیوں پہ فاتحہ خوانی اور سبھی رشتے داروں سے میل جول بڑھانا مقصود تھا۔ پروگرام طے کر کے ہم سب ہال روم میں ہی سو گئے، صبح اٹھ کر ماں جی کے ہاتھ کا ناشتہ ملنا بھی ایک نعمت غیر مترکبہ سے کم نہیں تھا، ناشتہ کر کے اللہ کا شکر ادا کیا اور دونوں خالہ زاد میڈم سوزوکی میں سوار ہو کر پشاور روڈ اور پھر جی ٹی روڈ سے ہوتے روات کو کراس کرتے، مندرہ کی طرف رواں ہو گئے۔ دس بجے کا وقت ہوا ہو گا جب ہم ریڈیو پاکستان روات کے پاس سے گزرے، بائیں جانب مانکیالہ سٹوپا کی عمارت دعوتِ نظارہ دیتی نظر آ رہی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ  پوٹھوار کی سرزمین ناہموار ہونے کے باوجود اپنے اندر ایک الگ حسن رکھتی ہے۔ گرمی کا موسم ہونے کے باوجود ہریالی اپنے جوبن پر تھی، جی ٹی روڈ کے ساتھ لگائے گئے درخت اپنا جوبن دکھا رہے تھے۔ چھنی عالم شیر خان، اور بانٹھ موڑ سے ہوتے مندرہ سے پہلے چوک پنڈوڑی جانے والی سڑک پر مڑ گئے اور نوازآباد نامی آبادی میں واقع خالو حکم داد کے گھر پہنچ گئے، ان کے بہنوئی اور ہمارے خالو فضل داد کا حال ہی میں گیہہ کوٹلی آزاد کشمیر میں انتقال ہو گیا تھا، ان سے ان کے بہنوئی کے سانحۂ ارتحال پر تعزیت کی اور فاتحہ خوانی کی۔ ان کے بیٹے اور ہمارے دونوں خالہ زاد تلاش معاش کے سلسلے میں ابوظہبی میں مقیم ہیں، پیچھے خالہ خالو اور دونوں خالہ زاد بھائیوں کی فیملیاں اور بچے ہی تھے۔ خالو کھانا کھانے کے لیے اصرار کر رہے تھے لیکن ہم نے چائے کے ساتھ ہلکا پھلکا ناشتہ کیا اور اجازت چاہی، مندرہ چوک پنڈوڑی روڈ پر دریائے کانشی کو کراس کر کے کُری دولال سے ہوتے ہوئے چوک پنڈوڑی جانے کے لیے چل پڑے۔