Pages

Tuesday 18 October 2022

قلعہ بھرنڈ/قلعہ برہوٹہ سہنسہ کوٹلی آزاد کشمیر کا ایک ڈے ٹرپ

 قلعہ بھرنڈ/قلعہ برہوٹہ سہنسہ کوٹلی آزاد کشمیر؛ ڈے ٹرپ

چند سال پہلے مجھے میرے سابق کالج فیلو اور حال کے آرکیالوجسٹ دوست آصف کا سکائپ پہ میسج ملا، میسج کا لب لباب یہ تھا کہ میں کب پاکستان آ رہا ہوں، کیونکہ موصوف کا اپنے جونیئرز کے ساتھ قلعہ بھرنڈ جانے کا پروگرام بن رہا تھا۔ میں پہلے بھی ایک بار قلعہ بھرنڈ جا چکا تھا اور اس کا تذکرہ اس تاریخی عمارتوں کے شوقین دوست سے کیا تھا، جس پر اس نے کہا تھا کہ جب ہمارا کوئی پروگرام بنا تو تم چونکہ اس علاقے سے تعلق رکھتے ہو اس لیے تم بھی ساتھ چلو گے۔ میں نے آصف کو بتایا کہ ہر سال کی طرح ان شاءاللہ میں مئی تا اگست کے درمیان کسی وقت آؤں گا، جیسے ہی پہنچتا ہوں جناب کی خواہش پوری کر دی جائے گی اور آپ کو قلعہ بھرنڈ دکھا دیا جائے گا۔ میں آصف کے ہمراہ کافی عرصہ پہلے آزاد کشمیر کے ہولاڑ اور آزاد پتن کے درمیان واقع قلعہ آئن کو دیکھ چکا تھا اور اس کے کچھ عرصہ بعد راولپنڈی کلر سیداں میں واقع قلعہ سنگنی دیکھنے بھی جا چکا تھا۔ گو کہ قلعہ سنگنی جانے کا پروگرام اچانک بنا تھا اس لیے وہاں ہم دونوں ہی گئے تھے، جبکہ قلعہ آئن جاتے وقت میرے دو عدد کزن بھی ہمراہ تھے۔ گو کہ موصوف قلعہ آئن جاتے وقت اپنے کچھ جونیئرز کو لے جانے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن چونکہ شہری جوانوں میں دشوار گزار پہاڑی رستوں پر چلنے کا تجربہ نہیں ہوتا تو اس بنا پر کہ شاید وہ 15 کلومیٹر کا دشوار گزار فاصلہ نہ طے کر سکیں اس لیے انہیں آخر میں ڈراپ کر کر دیا گیا تھا۔ لیکن چونکہ اس بار بھرنڈ قلعہ جانے کا پروگرام تھا، جو کہ مین کوٹلی راولپنڈی روڈ سے زیادہ فاصلے پر واقع نہیں تھا اس لیے میں نے انہیں جن جن کو شوق تھا قلعہ سر کرنے کا ان سب کو قلعہ دیکھنے کی دعوت بھی دے دی تھی۔ آپ کو بتاتا چلوں کہ قلعہ بھرنڈ موضع بھرنڈ نزد پوٹھہ، تحصیل سہنسہ ضلع کوٹلی آزاد کشمیر میں مین کوٹلی راولپنڈی روڈ کے شمال مشرق سمت میں چند فرلانگ کے فاصلے پر ایک پہاڑی کی چوٹی پر تعمیر کیا گیا ہے۔ جہاں یہ قلعہ تعمیر کیا گیا ہے وہاں قرب و جوار میں کبھی برہوٹہ نامی گاؤں بھی آباد تھا، اس لیے اسے قلعہ برہوٹہ بھی کہا جاتا ہے۔ قلعہ بھرنڈ کی تعمیر 1610 میں سدھنوتی کے اس وقت کے حکمران سردار سعید خان سدوزئی نے شروع کروائی تھی۔ قلعے کی تعمیر کا مقصد یہ تھا کہ موجودہ ضلع سدھنوتی (اس وقت کے ضلع پونچھ) میں قائم سدھن سلطنت کو ڈوگرہ راج کے حملوں سے محفوظ کیا جا سکے۔ سردار سعید خان سدوزئی نے حفاظتی مقصد کے لیے اسی قلعے کے شمالی سمت میں 7 میل کے فاصلے پر بارل کے مقام پر بھی ایک اور قلعہ تعمیر کروایا گیا تھا۔

ان دونوں قلعوں کی تعمیر کا بنیادی مقصد پہلی حفاظتی دیوار بنانا تھا جہاں اسلحہ و غلہ سٹور کیا جاتا تھا اور لشکری عملہ تعینات رہا کرتا تھا۔ لیکن ابتلائے زمانہ اور موسمی حالات، زمانے اور محکماتی لاپرواہی سے قلعہ آئین کی طرح قلعہ بھرنڈ بھی اب زبوں حالی کا شکار ہے۔ سدھن حکمرانوں کا تعمیر کردہ قلعہ بھرنڈ اپنے وقت میں واقعی ایک انتہائی شاہکار قلعہ رہا ہو گا، لیکن اس کی دن بہ دن گرتی عمارت آزاد کشمیر کے موجودہ و سابقہ حکمرانوں کی بے حسی کو خوب اجاگر کر رہی ہے۔ وہ دن دور نہیں کہ اس قلعے کا تذکرہ بھی صرف تاریخ کے اوراق میں ہی ملا کرے گا۔ جب میرا پاکستان جانے کا پروگرام طے پا گیا تو میں نے آصف کو پاکستان پہنچنے کی تاریخ بتا کر اس کو اپنی طرف سے تیاری کا کہہ دیا۔ 5 جولائی کو پاکستان پہنچا اور حسب سابق پہلے دو دن تو میں فوتگیوں کو بھگتانے میں لگا رہا، 7 جولائی کی شام آصف کو بتا دیا کہ میں فارغ ہو گیا ہوں، آپ بتائیں کیا پروگرام طے کیا ہے؟ اگلے دن جمعہ تھا، دوست بمع اپنی پارٹی کے جمعہ کی صبح بھرنڈ قلعہ کے طرف نکلنے کا بتا رہے تھے۔ چھوٹا بھائی شعیب پاس بیٹھا ہماری وائس چیٹ سن رہا تھا، اس نے کہا آپ ان کو کہوٹہ یا پوٹھہ جوائن کر لیں، کل میں کوٹلی جا رہا ہوں آپ کو ساتھ لیتا جاؤں گا۔ میں نے آصف سے پوچھا کہ کیا آپ کو رستے کا علم ہے؟ تو اس نے بتایا کہ ڈرائیور پرانا تجربے کار کشمیری ہے، اس لیے اسے راستوں کو بخوبی علم ہے۔ میں نے انہیں کہا کہ پھر ڈن ہو گیا آپ جمعہ کی صبح نکلیں اور کہوٹہ ہولاڑ سے ہوتے آگے کوٹلی روڈ پر پوٹھہ نامی گاؤں پر مین روڈ پر ہی رک جائیے گا، میں آپ کو وہیں ملوں گا۔ جب پروگرام طے ہو گیا تو میں سونے چلا گیا۔ چونکہ بھائی کا فوٹان ٹرک پلائی وڈ سے لوڈ کھڑا ہوا تھا، اس لیے ہمارا پروگرام یہ تھا کہ صبح ناشتہ کر کے میں اس کے ساتھ نکل جاؤں گا۔ اگلی صبح ناشتہ کر کے ہم دونوں پشاور روڈ سے ریس کورس کی طرف چل پڑے، پشاور روڈ اور مال روڈ سے ہوتے کچہری، ایوب پاک، مورگاہ، سواں سے ہوتے کہوٹہ روڈ پر مڑ گئے۔ ماضی کے خوبصورت نواحی علاقے اب کنکریٹ کا جنگل بنتے جا رہے تھے، ہمک ٹاؤن تو اتنا پھیل گیا ہے کہ وہ بجائے خود ایک شہر بن گیا ہے۔ خیر صبح کا وقت تھا اور ٹریفک کم تھی، سواں کاک پل کے آس پاس سڑک خراب تھی اور سہالہ کے بند پھاٹک تک بمشکل پہنچ پائے تھے کہ آصف کا فون آ گیا کہ ہم اسلام آباد ایکسپریس وے پر ہیں اور وہاں سے ہم کہوٹہ روڈ پہ مڑ جائیں گے۔ بھائی نے ان کے کوچ ڈرائیور کو بتایا کہ یہاں روڈ خراب ہے آپ کرال چوک سے جاپانی روڈ سے ہوتے ہوئے آ جاؤ اور چکیاں سے کہوٹہ روڈ جوائن کر لینا اور ساتھ ہی آسانی کے لیے ان کو رستہ بھی سمجھا دیا۔ ادھر فون کال ختم ہوئی اور ادھر اللہ اللہ کر کے سہالہ ریلوے پھاٹک بھی کھل گیا تو ہم اللہ کا نام لے کر چل پڑے۔ جلد ہی چکیاں کو کراس کر کے چک کامدار، آڑی سیداں، پنیالی سے ہوتے علیوٹ کی طرف چل نکلے۔ پنیالی سے آگے کہوٹہ تک  قدرے کم آبادی ہے اور یہاں کی ہریالی دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کرنا نہیں بھولے۔ تھوڑی دیر میں ہم لنگ دریا کراس کر کے کہوٹہ کے بے ہنگم ٹریفک کے لحاظ سے بدنام کلر چوک سے ہوتے، کہوٹہ ہیلتھ سینٹر کے پاس سے گزرتے، پنجاڑ چوک سے ہوتے کوٹلی چوک کی طرف چل پڑے۔ پنجاڑ چوک میں ہمیں بھائی تصدق نظر آ گئے، گاڑی روک کر انہیں ملے اور پوچھا کہ بھائی کدھر کا ارادہ ہے؟ کہنے لگے واپسی کا ارادہ ہے، میں نے پوچھا کوئی سامان ہے تو گاڑی میں رکھیں تاکہ ہم چلیں۔ انہوں نے کہا کہ وقاص نیچے چوک میں ہو گا، بیگ اس کے پاس ہیں، وہیں سے لے لیں گے۔ کہوٹہ مین بازار چوک سے وقاص کو بھی کیبن میں سوار کیا اور بیگ پیچھے رکھوا دئیے۔ راستے میں بھائی نے سفر کا پوچھا کہ دو دن پہلے آئے ہو آج کہاں کا ارادہ ہے؟ بتایا کہ مری روڈ کے ایک دوست اور یونورسٹی کے کچھ طالب علم ہیں ان کو قلعہ بھرنڈ دکھانا ہے۔ بھائی کہنے لگے کہ وہاں تو صرف ایک چائے کا ریسٹورنٹ ہے یہ نفر سارا دن رہ کے وہاں کھائیں گے کیا؟ یہ بھی سوچا ہے؟ میں واقعی سوچ میں پڑ گیا کہ کیا ہو گا، بھائی تصدق کہنے لگے فکر نہیں کرو، اس بار ان کو دریائے جہلم کی تازہ فرائی مچھلی کھلائیں گے، لیکن شرط یہ ہو گی کہ تم ان کے ساتھ واپس نہیں جاؤ گے، میرے ساتھ گیہہ چلو گے۔ یہ تو ایک طرح سے میرے جیسے اندھے پلانر کے ہاتھ بٹیر لگ جانے والی بات ہو گئی تھی، سو میں نے منظور کر لی۔ انہیں کھانے کی تیاری کے لیے رقم دی کیونکہ ایک نفر کی بات تو نہیں تھی، بھائی ویسے بھی یہ سب کچھ اپنے گھر تو نہیں کرنے والے تھے، وہیں ہولاڑ میں ایک دوست کے ہاں یہ سب سیٹ اپ کرنا تھا۔ باتوں باتوں میں پتہ نہیں چلا اور ہم بیور سے ہوتے دریائے جہلم کے پرانے کروٹ پل پر جا رکے، آپ کو بتاتا چلوں کہ ابھی کروٹ ڈیم نہیں بنا تھا، بس خالی سروے ٹیمیں اپنے کام میں مصروف تھیں۔ وقاص وہیں سے سودا سلف کے تھیلے لے کر گیہہ جانے والے ایک قافلے کے ساتھ چل پڑا۔ ہم دریا کنارے ایک چھابڑی والے مچھلی فروش کے پاس جا پہنچے، اس سے مچھلیوں کا سودا کیا اور مچھلیاں لے کر واپس فوٹان میں جا بیٹھے۔ بھائی تصدق کو ہولاڑ بازار سے تھوڑا پہلے ان کے دوست کے گھر کے پاس اتارا اور اللہ حافظ کہہ کر کوٹلی جانے والی بدنام چڑھائی پر فوٹان کو ڈال دیا۔ پندرہ منٹ کی فوٹان کے انجن توڑ چڑھائی کے بعد ہے کوٹلی سہنسہ روڈ پر چل نکلے۔ یہاں سے گلپور تک رستہ قدرے ہموار ہے، دائیں جانب نیچے دریائے جہلم ساتھ ساتھ بہتا نظر آ رہا تھا پھر وہ بھی مڑ کر میرپور کی طرف رخ کر گیا۔ نیچے جنگل اور برساتی نالے شور کرتے سنائی دیتے تھے جو اس بات کی نشانی تھی کہ رات کو دریائے پونچھ اور اس میں ملنے والے نالوں کے کیچمنٹ ایریا میں بارش ہوئی ہے۔ ہولاڑ کی چڑھائی چڑھ کر پھلائی گلہ کے پاس سے گزرتے ہوئے ہم پلیٹ سیداں کی طرف گامزن ہو گئے۔ کئی دوست کہتے ہیں کہ میں علاقے کی خوبصورتی کو زیادہ بیان نہیں کرتا، احباب سے عرض ہے کہ جو دیکھا جا سکتا ہے بعض اوقات اسے لفظوں میں بیاں کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے پھر طوالت سے بچنا بھی تو مقصود ہوتا ہے۔ پوٹھہ پہنچے تو آصف کا فون آ گیا کہ ہم دریائے جہلم کا پل کراس کرنے لگے ہیں، میں نے کہا میں منزل کے پاس پہنچ چکا ہوں، تھوڑی دیر بعد ہم پوٹھہ کے چھوٹے سے بازار میں پہنچ گئے۔ بھائی کو کہا کہ اب تم اپنے کوٹلی کے سفر پر نکلو اور میں ان سب کے لیے چائے وغیرہ کا بندوبست کرتا ہوں۔ ہمارے ایک عزیز کا تعلق بھی پوٹھہ سے ہے، جو کہ پاک آرمی میں کرنل ہیں۔ ریسٹورنٹ والے کو ان کا حوالہ دے کر آدھے گھنٹے بعد دس پندرہ افراد کے لیے چائے اور کچھ دیگر لوازمات کا آرڈر دیا۔ ٹھیک آدھ گھنٹے بعد آصف کی یونیورسٹی کی کوچ پوٹھہ آن پہنچی، مسافروں کی منزل مقصود قلعہ بھرنڈ سامنے پہاڑ کی چوٹی پر دکھائی دے رہا تھا، جسے دیکھ کر سب بھول بھلا کر اس طرف اشارے کرنے لگے اور جوش سے نعرے لگانے لگے۔ آصف کو متوجہ کر کے ریسٹورنٹ نما ڈھابے میں بلایا، ان سے کافی عرصے بعد ملاقات ہو رہی تھی، ہم پرجوش طریقے سے گلے ملے۔ انہیں چائے اور ریفریشمنٹ کا بتایا تاکہ وہ اپنے شاگردوں وغیرہ کو بھی بلا لیں تاکہ پہلے پیٹ پوجا فر کم دوجا والا کام کیا جاوے۔ کرنل صاحب کے نام کا اثر تھا کہ ریسٹورنٹ والے نے ایک کمرے میں چند میز اکٹھے کر کے ان کو ڈائننگ روم کا روپ دیا ہوا تھا اور اطراف میں کرسیاں لگا دی گئی تھیں۔ ریسٹورنٹ والے نے چائے کے ساتھ، ڈرنکس، بسکٹ، کیک، سموسے اور آلو کے پکوڑے پیش کیے۔ سبھی نے بے تکلفی سے چائے کے ساتھ دیگر اشیا سے انصاف کیا۔ بل ایڈوانس میں پے کر دیا تھا اس لیے میں انہیں لے کر بھرنڈ قلعے کی طرف چل پڑا۔ چند فرلانگ کا فاصلہ طے کر کے ہم ایک پہاڑی کی چوٹی پر پہنچے، سب اوپر پہنچے تو میں نے احتیاطاً بتا دیا کہ قلعے کی کچھ دیواروں کی حالت کافی مخدوش ہے اس لیے ان دیواروں پہ چڑھنے کی کوشش نہ کی جائے، جو سکیچنگ یا فوٹوگرافی کرنی ہے کر لیں، اینٹوں دروازوں کا ناپ لینا ہے تو پہلے جگہ دیکھ لیں کہ کہیں جگہ کمزور تو نہیں۔ میں قلعے کو پہلے بھی تفصیل سے دیکھ چکا تھا، اس لیے آصف اور اس کے شاگردوں یا جونیئرز کو ان کا رانجھا راضی کرنے پہ چھوڑ کر میں آس پاس کا علاقہ دیکھنے نکل پڑا، آصف کو پہلے ہی بتا دیا کہ کھانے کا بندوبست ہولاڑ میں کیا جا چکا ہے، قلعہ گردی کر کے آپ سب وہیں ریسٹورنٹ پر آ جانا، چائے یا ڈرنکس پی کر ہولاڑ واپس چلیں گے۔ دو اڑھائی گھنٹے بعد آصف نے فون کیا کہ چائے رہنے دیں، ہولاڑ سے کھانا کھا کر واپسی پر کہوٹہ کالج میں ایک دوست پروفیسر کے ہاں میں چائے پئیں گے۔ ریسٹورنٹ والے کو کہا کہ بھائی، اب یہ چائے آپ خود پی لینا، وہ بے چارہ پیسے واپس کر رہا تھا لیکن میں نے واپس نہیں لیے بلکہ مزید کچھ رقم اس کے بچوں کے لیے بطور تحفہ بھی دی۔ ایک گھنٹے بعد دوست بمع اپنے جونیئرز کے آن پہنچا اور ہم ریسٹورنٹ والے بھائی کو الوداع کہہ کر کوٹلی راولپنڈی روڈ پر ہولاڑ کی جانب روانہ ہو گئے۔ پینتیس منٹ کے سفر کے بعد ہم ہولاڑ بازار سے ذرا نیچے بر لب سڑک بھائی تصدق کے دوست کے گھر پہنچے، بھائی کھانا تیار کر چکے تھے، مہمانوں کو بٹھا کر، مجھے اگلا پروگرام بتا کر وہ خود پاس کے تنور سے روٹیاں لینے چل پڑے۔ جتنی دیر میں وہ روٹیاں لے کر آتے، میں نے اور ان کے دوست کے گھر والوں نے ریسٹورنٹ والوں کی نقل کرتے ہوئے گھر کے سارے میز اکٹھے کر کے برآمدے میں ہی ایک ڈائننگ ٹیبل کی شکل دی اور کھانے کی ڈشیں لا کر رکھنا شروع کر دیں۔ بھائی تازہ بتازہ روٹیاں لگوا کر لے آئے تو سب کو کھانے پر بلوا لیا گیا۔ ماشاءاللہ بھائی تصدق نے اتنے کم وقت میں بھی بہت بہترین کھانے تیار کیے تھے، فش فرائی، فش کری، چکن کڑھائی، رائتہ اور سلاد۔ صبح کے ناشتے اور دن کی چائے کے بعد اتنا اچھا کھانا سبھی کو من و سلویٰ سے کم نہیں لگ رہا تھا۔ سب شہری مہمانوں اور دوست نے اس بے تکلف دعوت کا اہتمام کرنے پر بھائی تصدق اور ان کے دوست کے اہل خانہ کا تہِ دل سے شکریہ ادا کیا۔ کھانا کھا کر پہاڑی پودینے کے بنے قہوے کا انتظام گھر کی چھت پر کیا گیا جہاں سے نیچے دریائے جہلم کا کروٹ گاؤں، اس کے آس پاس کا علاقہ اور سرسبز پہاڑ اپنا جوبن دکھا رہے تھے۔ قدرت کے بہترین نظارے دیکھ کر شہری بابوؤں کی آنکھوں میں خاص چمک دکھائی دے رہی تھی۔ کروٹ کا یہ گاؤں تو خیر اب کروٹ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی نذر ہو گیا ہے لیکن اپنے پیچھے ملک کی آئندہ آنے والی کئی نسلوں کے اندھیرے گھروں کو روشن کر گیا ہے۔ کھانا کھا کر آصف اپنے احباب کے ہمراہ براستہ کہوٹہ واپس یونیورسٹی سدھار گیا اور ہم دونوں خالہ زاد ان کے دوست کے اہلِ خانہ کا شکریہ ادا کر کے گیہہ گاؤں کی طرف چل پڑے، آخر بھائی تصدق سے کیا وعدہ بھی تو پورا کرنا تھا ناں۔



1 comment: