Pages

Sunday 20 November 2022

تھروچی قلعہ گلپور کوٹلی کا روڈ ٹرپ پر مشتمل بلاگ

 تھروچی قلعہ گلپور کوٹلی کا روڈ ٹرپ پر مشتمل بلاگ

چند سال پہلے جب مجھے والدہ مرحومہ کے سانحۂ ارتحال کے موقع پر پاکستان جانے کا اتفاق ہوا۔ والدہ کی رحلت کے بعد کم و بیش دو ہفتے تو بے حد مصروفیت رہی، والدہ کے بغیر خالی گھر کاٹ کھانے کو دوڑتا تھا۔ انہی دنوں میں گورڈن کالج کے زمانے کے کلاس فیلو اور حال کے آرکیالوجسٹ دوست آصف کو والدہ کی وفات کی خبر ملی تو وہ بھی فاتحہ خانی کے لیے تشریف لائے، یہ وہ دوست ہیں جن کے ساتھ ماضی میں قلعہ آئن نزد ہولاڑ، کوٹلی، قلعہ سنگنی قلعہ نزدکلرسیداں، راولپنڈی اور اس کے بعد بھروٹہ قلعہ نزد پوٹھہ کوٹلی کے چند ٹرپس پر جا چکا تھا۔ باتوں باتوں میں موصوف نے مجھے ماحول بدلنے کا مشورہ دیا، ان کا کہنا تھا کہ مجھے ایک دن کے لیے ہی سہی کہیں باہر گھومنے جانا چاہیے تاکہ والدہ کی وفات کے صدمے کے اثر سے نکلا جائے اور یوں بھی کشمیر جیسے قدرتی ماحول سے بہتر کوئی مقام نہیں ہو سکتا تھا۔ ویک اینڈ پر ابھی رشتے داروں اور احباب کا باقاعدگی سے آنا جانا لگا رہتا تھا اس لیے ہم دونوں نے ویک ڈیز میں پروگرام بنایا کہ کیوں نہ اس بار تھرو چی قلعے کا ڈے ٹرپ لگانا چاہیے، ایک تو وہ گلپور کے مقام سے زیادہ دور نہیں ہے اور دوسرا ہم شام تک آرام سے وہاں سے ہو کر واپس گھر پہنچ جائیں گے۔ ہم دونوں آپس میں باتیں کر رہے تھے تو خالہ زاد انصر بھی پاس بیٹھا ہماری باتیں سن رہا تھا، اس نے بتایا کہ وہ آپ کل پی ٹی سی ایل کی طرف سے وی وی آئی پی ایمرجنسی ڈیوٹی پر آن کال ہے۔ اس نے مشورہ دیا کہ آپ دونوں صبح میرے ساتھ چلے چلیں، مجھے کل ویسے بھی چڑھوئی آزاد کشمیر جانا ہے، میں گلپور تھروچی تک آپ کو ڈراپ دے دوں گا، آپ اپنا ٹرپ لگا لینا اور اگر میرا کام جلد مکمل ہو گیا تو واپسی پر بھی آپ کو ساتھ لیتا آؤں گا۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھوں، پروگرام یہی طے ہوا کہ آصف رات میرے پاس ہی ٹھہرے گا، یوں ہم صبح صبح ناشتے کے بعد تھروچی کے لیے نکل جائیں گے۔ سب طے کر کے آصف بائیک پر اپنا کٹ بیگ اور فوٹوگرافی کا سامان لینے مری روڈ نکل گیا، شام کو جب وہ واپس آیا تو ہم کھا کھا کر سفر کا ارادہ کر کے رات جلدی سو گئے۔
صبح ناشتہ کر کے خالہ زاد انصر کی سوزوکی پوٹھوار جیپ میں سوار ہو کر، پشاور روڈ، مال روڈ، اولڈ اسلام آباد ائیرپورٹ سے ہوتے کورال چوک سے گزرتے ہوئے جاپانی روڈ کے ٹریفک سے خالی پرسکون راستے سے ہوتے ہوئے براستہ چکیاں کہوٹہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ گرمیوں کے دن تھے، ڈرنکس، پانی، کچھ پھل اور سفر کی مناسبت سے کھانے کے لیے گھر سے برگرز بنوا لیۓ تھے۔ کہوٹہ کے بے ہنگام شہر سے نکلے تو آگے کا سفر ارد گرد کے قدرتی ماحول کی وجہ سے لطف دینے لگ گیا تھا۔ اپنے پسندیدہ کٹھہ ہل ٹاپ ریسٹورنٹ سے اپنی پسندیدہ دیسی خالص دودھ کی بنی دودھ پتیچائے پی اور بیور کے قبصے کی جانب رواں دواں ہو گئے۔ بیور سے ہمارے ایک ماموں بھی ہمارے ہمسفر ہو گئے جو یہاں کے ڈاکخانے سے اپنی پنشن لینے آئے ہوئے تھے۔ چنگھڑ اور کروٹ گاؤں سے ہوئے ہوئے کروٹ پل کراس کیا اور چیختے چنگھاڑتے ہوئے دریائے جہلم کو سلامی پیش کی اور آزاد کشمیر کی حدود میں داخل ہو گئے۔ ماموں کو ہولاڑ بازار کے آخر میں چھے چھن جانے والے ذیلی راستے پر اتارا اور انہیں خدا حافظ کہہ کر گلپور کی طرف روانہ ہو گئے۔ ہولاڑ کی بدنام زمانہ چڑھائی چڑھ کر ہولاڑ کی خوبصورت وادی کو الوداع کیا اور آگے چل پڑے۔ پھلائی گلہ سے نیچے برساتی نالے اس بات کا اعلان کر رہتے تھے کہ رات کو کیچمنٹ ایریا میں زوروں کی بارش ہوئی ہے۔ کوٹلی کہوٹہ روڈ پر سفر جاری رکھتے ہوئے پلیٹ سیداں سے ہوئے پوٹھہ پہنچے اور آصف کو بھرنڈ قلعے سے ہائے ہیلو کروائی، موصوف کی آنکھیں ایک بات دیکھا ہے دوسری بار دیکھنے کی ہوس ہے کی داستان بیان کر رہی تھیں۔ یاد کرواتا چلوں کہ چند سال پہلے میں ان کے یونیورسٹی کے دوستوں کے ہمراہ اس قلعے کا دورہ کر چکے ہیں۔ پوٹھہ سے ہوئے ہوئے چھنی سیداں کو پیچھے چھوڑنے ہوئے سہنسہ بائی پاس تک جا پہنچے۔ سہرمنڈی سے گزرتے ہوئے اب ہماری منزل مقصود گلپور زیادہ دور نہیں رہ گئی تھی۔ سہرمنڈی اور گلپور کو دریائے پونچھ کا پل جدا کرتا ہے، گلپور کافی گنجان آباد قصبہ ہے جو اب ایک چھوٹے شہر کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ گلپور کے بالکل آخر میں ایک راستہ کوٹلی شہر کی طرف چلا جاتا ہے اور ایک رستہ میرپور کی طرف نکل جاتا ہے۔ گلپور سے تھروچی قلعے کو جانے کے دو راستے ہیں ایک براستہ گلپور ننگل روڈ جو کہ کوٹلی روڈ سے جدا ہوا ہوتا ہے اور دوسرا میرپور روڈ کے ویٹرنری ہسپتال کے پاس سے اوپر پہاڑی گاؤں تھروچی کی طرف جاتا ہے، اسی گاؤں کی نسبت سے یہ قلعہ تھروچی کہلاتا ہے۔ خالہ زاد انصر نے مہربانی کی کہ وہ ہمیں تھروچی گاؤں تک ڈراپ کر آیا، اگر خود سے جاتے تو آدھ گھنٹے کی چڑھائی ضرور چڑھنی پڑتی۔ انصر نے ہمیں گاؤں کے شروع میں اتارا اور خود واپس چڑھوئی جانے کے لیے نکل پڑا۔ ہم دونوں نے اپنے اپنے بیگ اٹھائے اور اوپر تھروچی قلعے کی طرف پہنچنے کے لیے آخری دشوار گزار چڑھائی سر کرنے لگے۔ قلعے کے پاس پہنچ کر قلعے کے نام پر باقی بچ جانے والے کھنڈر کو دیکھ کر افسوس ہوا، سوائے فصیل کے باقی عمارات تباہ ہو چکی تھیں جسے دیکھ کر بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ حکومت آزاد کشمیر نے اس کی مناسب دیکھ بھال کے لیے کچھ نہیں کیا، کوئی بعید نہیں کہ اگلی صدی تک اس قلعے کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے۔ مجھے قدرتی مناظر سے زیادہ دلچسپی تھی، اس لیے میں نے قلعہ گردی آصف کے حوالے کی اور خود ارد گرد کے قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے نکل گیا۔ میں قدرتی مناظر میں مگن تھا اور آصف زمانۂ قدیم کی یادگار قلعے میں پرانے زمانوں کی یادگاروں کو تلاش کر پھر رہا تھا۔ گھوم پھر کے آتا تو اسے دیکھتا کہ شاید مجھ نئے زمانے کے انسان پر بھی توجہ دے لیکن شاید اسے فی الحال ماضی زیادہ اچھا لگ رہا تھا۔ اس مگن دیکھ کر میں بھی فصیل سے نیچے کی وادیوں اور موہلی نامی برساتی نالے کا نظارہ کرنے لگا۔ دو اڑھائی گھنٹے بعد اس پھر سے اپنے قریب دیکھا تو یاد دلایا کہ چائے اور برگز وغیرہ کی طرف بھی توجہ دے لے تاکہ میرے بیگ کا بوجھ بھی ہلکا ہو، شکر ہے اسے بھی پیٹ پوجا یاد آئی اور ہم چائے، برگز اور پھلوں سے لطف اندوز ہونے لگے۔ بیگ کا بوجھ ہلکا ہوا تو اسے پھر سے اپنے کام میں مگن چھوڑ کر قلعے کی فصیل سے سامنے دریائے پونچھ کی بل کھاتی گزر گاہ اور کوٹلی وادی کے نظارے کرنے میں مگن ہو گیا۔ فصیل سے بڑالی کا وہ مشہور گاؤں/مقام بھی دکھائی دیکھ رہا تھا، جہاں آج کا مشہور گلپور ہائیڈرو پاور پراجیکٹ تعمیر کیا گیا ہے۔ آصف اپنے کام میں مگن تھا اور میں قدرتی نظاروں سے لطف اندوز اندوز ہو رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ قدرت نے ہمارے کشمیر اور اس سے ملحقہ شمالی علاقہ جات کو کس بہا قدرتی حسن سے نوازا ہے، اور ہم ہیں کہ نجانے کیوں یورپ کو دیکھنے نکل جاتے ہیں، کاش ہم یہ بھی جان لیں کہ ہمارے گھروں سے چند گھنٹوں کے فاصلے پر بھی کتنے خوبصورت مقام پائے جاتے ہیں۔ احباب سے گزارش ہے کہ تھوڑا وقت اپنے اور فیملی کے لیے بھی نکالا کریں تو کیا ہی اچھا ہو۔ آصف کا جب دل قلعہ گردی سے بھر گیا تو اس نے اہم نوٹس لکھنے کی طرف توجہ دی، میں نے آخری چائے کا کپ اس کو پکڑایا اور خود بھی قلعے و ملحقہ وادی کا الوداعی جائزہ لینے نکل پڑا۔ واپس آیا تو آصف آخری فوٹوگرافس لے رہا تھا جو اس بات کا اشارہ تھا کہ اب قلعہ گردی کا اختتام نزدیک ہے۔ عصر کے بعد ہم دونوں دوست قلعے کو الوداع کہہ کر نیچے تھروچی گاؤں کی طرف چل پڑے۔ چند گھروں کی نیم پلیٹوں پر لکھے نام یہ ظاہر کر رہے تھے کہ اس گاؤں کے وسنیکوں کا تعلق منگرال راجپوتوں سے ہے۔ کبھی قلعہ کہانی اور اس علاقے کی تاریخ پر قلم بندی کی تو ان شاءاللہ اس پر بھی تفصیل سے لکھوں گا۔ واپسی کا سفر زیادہ مشکل نہیں تھا، بل کھاتی گلپور تھروچی روڈ کی سڑک گردی کرتے ہوئے، آس پاس کی وادیوں کے نظارے کرتے ہوئے ہم دونوں دوست کوٹلی میرپور روڈ پر چا پہنچے۔ گلپور بازار کی مٹر گشت کرتے ہوئے میری نظریں کسی مناسب ڈھابے کو تلاش کر رہی تھیں۔ کشمیر آئیں اور کشمیری بکریوں کا گوشت نہ کھایا جائے تو اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہو سکتی ہے۔ آخر کار کوٹلی کہوٹہ سہنسہ روڈ پر ایک ڈھابہ دکھائی دے ہی گیا، مالک شاید ہم سے چائے کی توقع کر رہا تھا، ہم نے بکرے کی کڑھائی کا آرڈر دیا تو پریشان ہو گیا، کہنے زیادہ مسیر جی! اس وقت تو سارے بازار والے دکاندار واپس اپنے گھر کو  چلے جاتے ہیں۔ میں نے کہا ملک یہ مہماں نوازی تو نہ ہوئی نا، میں آدھا کشمیری ہوں مگر میرا دوست نہیں، اس نے واپس جا کر ہم کشمیریوں کا حقہ پانی بند کر دینا ہے۔ خیر تھوڑی رد و کد کے بعد اس نے فزیر سے بکرے گوشت نکالا اور کڑھائی کی تیاری شروع کر دی۔ وہ اپنی کام میں مگن ہو گیا اور میں نے خالہ زاد کو کال کیا کہ کیا ارادہ ہے؟ کشمیری پہاڑی بکرا انتظار کر رہا ہے، کھانا ہے تو سہنسہ کہوٹہ روڈ پر ملک کے ڈھابے پر جلدی پہنچو۔ اس نے بتایا کہ وہ آدھا گھنٹہ پہلے چڑھوئی سے ہوتا ہوا گلپور کے لیے نکل آیا ہے اور زیادہ سے زیادہ چالیس منٹ تک پہنچ جائے گا۔ واقعی پھر یہی ہوا کہ ادھر ڈھابے والے کشمیری بھائی نے کڑھائی تیار کر کے روٹیاں لگانی شروع کیں تو ادھر خالہ زاد کی سوزوکی پوٹھوار بھی گلپور پہنچ گئی۔ ڈھابے والا بظاہر سیدھا سادہ تھا لیکن کھانے کا ذائقہ دیکھ کر کہا سکتا ہے کہ وہ پکوائی کا ہنر جانتا تھا، کم مصالے سے بنی، پہاڑی بکرے کی کڑھائی نے واقعی مزا دیا، ملک کو بل ادا کر کے اور اس کی مہماں نوازی کا شکریہ ادا کر کے ہم ایک بار پھر سے کہوٹہ کوٹلی روڈ پر روانہ ہو گئے۔ اندھیرا پھیر رہا تھا تھا جب ہم ہولاڑ سے نیچے دریائے جہلم کو کراس کر رہے تھے۔ کہوٹہ روڈ پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی۔ بیور کا قصبہ بیابانی کا منظر دکھا رہا تھا۔ بیور کٹھہ کی چڑھائی چڑھ کر چائے کے لیے پھر سے ایک بات پھر ہل ٹاپ ریسٹورنٹ پر رکے اور دیسی دودھ کی بنی ہوئی دودھ پتی سے لطف اندوز ہوئے اس وقت تک بیور وادی میں مکمل اندھیرا چھا چکا تھا۔ دودھ پتی پی کر ہم تینوں جلد ہی جیوڑہ، ہنیسر، ٹھنڈا پانی، دُھپری سے ہوئے کہوٹہ آن پہنے۔ دن کی ٹریفک کی وجہ سے بدنام کہوٹہ اب بالکل سویا ہوا تھا، صرف کوٹلی، چوک، پنجاڑ چوک اور کلر چوک پہ موجود چند دکاندار ہی موجود تھے۔ کہوٹہ سے براستہ جاپانی روڈ، کورال چوک سے ہوتے ہم پرانے ائیرپورٹ روڈ سے ہوتے ہوئے راول روڈ پہ نکل آئے، ڈھوک کھبہ سے متصل ملت کالونی پہنچ کر آصف کو اس کے گھر اتارا اور خدا حافط کہہ کر اس سے اجازت چاہی۔ کمیٹی چوک سے ہوتے اقبال روڈ سے ہوتے گنجمنڈی روڈ سے گزرتے ہوئے ویسٹرج کینٹ ایریا میں داخل ہوئے۔ عشاء کی اذانیں ہو رہی تھیں جب ہم ابا جی کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ ٹرپ نے وقتی طور پر مجھے ماحول سے دور ضرور کر دیا تھا لیکن وہی گھر ماں جی کے بغیر پھر سے ایک بار پھر سے کاٹ کھانے کو دوڑ رہا تھا، گو کہ آصف نے تھروچی قلعے کے ٹرپ کے ذریعے سوگوار ماحول کو بدلنے کی پوری کوشش کی تھی لیکن گھر واپسی پر، وہی اداسی پھر سے عود آئی تھی۔


No comments:

Post a Comment