Pages

Wednesday 7 December 2022

بارل قلعہ پلندری سدھنوتی روداد سفر پر مشتمل بلاگ

 بارل قلعہ پلندری سدھنوتی رودادِ سفر پر مشتمل بلاگ

گورڈن کالج کے زمانے کے کلاس فیلو اور حال کے آرکیالوجسٹ دوست آصف کا واٹس ایپ میسج ملا کہ اگلی بار آؤ تو بارل قلعہ کو دیکھنے جائیں گے۔ میں نے بتایا کہ ان شاء اللہ مئی جون میں آنے کا پروگرام ہے، لیکن اس بار تمہیں بارل میں میرے ساتھ کم از کم  ایک رات رکنا ہو گا کیونکہ وہاں کے میرے کچھ رشتے دار میرے منتظر ہوں گے جو کہ ہر بار گلہ کرتے رہ جاتے ہیں کہ تم ہمیں ہم سے کنی کترا جاتے ہو، اس لیے اس سفر میں رشتے داروں کا رانجھا بھی راضی کرنا ہو گا اور آصف دونوں کی خواہشات بیک وقت پوری کرنا ہوں گی۔ آصف تو جیسے انتظار میں بیٹھا اور فوراً مان گیا، میں نے ماں جی کے خالہ زاد، میرے رشتے کے ماموں عزیز عرف بابو جی تک اطلاع پہنچا دی کہ اس بار آپ کا گلہ دور کرنے بارل آ رہا ہوں۔ چلیں لگے ہاتھ آپ کو کچھ قلعہ بارل کے بار میں بھی بتاتا چلوں۔ بارل قلعہ آزاد جموں و کشمیر کے ضلع سدھنوتی میں بارل کے مقام پر واقع ہے۔ بارل قلعہ سرسبز و شاداب جنگلات کے وسط میں پہاڑوں کے درمیان ایک اونچی پہاڑی چوٹی پر بنایا گیا تھا جس کا رقبہ تین کنال ہر محیط ہے، اس سے تھوڑے سے فاصلے پر یہاں بارل کا شہر نما قصبہ آباد ہے۔ آزاد کشمیر کے دیگر قلعوں کی طرح مناسب دیکھ بھال نہ ہونے، موسمی اور قدرتی آفات کے باوجود یہ قلعہ بھی کھنڈرات پر مشتمل ہے۔ لیکن دیکھا جائے تو اس کے خالقوں کو داد دینا پڑتی ہے، محل و وقوع کے اعتبار سے اس کی دفاعی اہمیت مسلم ہے۔ اس کے شمال میں ضلع سندھنوتی کا صدر مقام پلندری، جنوب میں ضلع کوٹلی کی تحصیل سہنسہ، مشرق میں بلوچ بیٹھک اور مغرب میں اٹکورہ/ہولاڑ کے علاقے واقع ہیں۔ قلعہ بارل کی تعمیر میں جو پتھر استعمال کیا گیا ہے بقول بابو عزیز کے اسے قریبی سہر نالہ سے لایا گیا تھا۔ سرخ مٹی/ریتی، چونا پنیالی نالے اور بن نالے سے لائے گئے تھے۔ قلعے کا سنگ بنیاد 1610 میں اس وقت کے نواب آف سدھنوتی سردار سعید خان سدوزئی نے رکھا تھا، یہ وہی سدھن سردار ہیں جنہوں نے قلعہ بھرنڈ بھی تعمیر کروایا تھا اور تھروچی قلعے میں بھی چند اضافی تعمیرات کروائیں تھیں۔ ڈوگرہ راج میں 1837 ميں مہاراجا گلاب سنگھ کے دور ميں یہاں کچھ اضافی تعمیرات بھی کی گئیں تھیں۔ بارل قلعہ کی کچھ عمارات تو قدرے بہتر حالت میں ہیں لیکن کافی ساری عمارتيں محکمۂ آثار قدیمہ کی بے رحم پالیسی اور موسموں کی سختی کا شکار نظر آتی ہے۔ قلعہ بارل دیگر قلعوں کی طرح آج بھی منتظر ہے کہ کوئی درد رکھنے والا مسیحا آئے اور اسے ماضی کی عظمت رفتہ کی طرح آباد کرے۔

حسب پروگرام مئی کے آخر میں جب اسلام آباد پہنچا اور شروع کے چند دن معمول کے مطابق فوتگیاں بھگتانے میں گزر گئے، فارغ ہو کر آصف کو فون کیا کہ میں پاکستان پہنچ گیا ہوں، تم سناؤ کیا پروگرام ہے؟ کہو تو ایک دو دن میں بارل قلعہ دیکھنے چلے چلتے ہیں؟ لیکن یاد رکھنا کہ اس بار تمہیں بارل قلعہ کے کھنڈرات دیکھنے کے لیے خود جانا ہو گا، ویسے بھی میں نے باہر سے قلعہ دیکھا ہوا ہے، بہتر یہی ہے کہ تم مجھے رشتے داروں کی ناراضگیاں دور کرنے کے لیے گھنٹوں کے لیے آزاد چھوڑ دینا، لیکن گھبرانا نہیں ہے، میں بارل سے کسی رشتے دار کو بطور گائیڈ تمہارے ساتھ قلعہ دیکھنے ضرور بھجواؤں گا۔ پروگرام طے کر کے اگلے دن صبح صبح اسے فیض آباد پہنچنے کا کہہ دیا، خود میں پیرودھائی سے اس کے لیے سیٹ ریزروز رکھوا کر بیٹھ گیا اور فیض آباد سے آصف بھی میرا ہمسفر ہو گیا۔ اسلام آباد ایکسپریس وے سے ہوئے، کہوٹہ کی جانب روانہ ہو گئے۔ کہوٹہ پہنچے تو وہاں خبر گرم تھی کہ آزاد پتن روڈ اور پلندری روڈ پر لینڈ سلائیڈنگ ہوئی ہے لیکن راولاکوٹ روڈ ٹریفک کے لیے کھلا ہے۔ جو احباب بارل قلعہ جانا چاہیں ان کی سہولت کے لیے بتاتا چلوں کہ ویسے تو وہاں جانے کا آسان راستہ تو کہوٹہ، آزاد پتن براستہ پلندری سے ہوتا جاتا ہے لیکن اگر یہاں لینڈ سلائیڈنگ جیسا واقعہ ہو جاتا ہے تو آپ کو بتاتا چلوں کہ آپ چھے چھن والا متبادل راستہ استعمال کر سکتے ہیں۔ دو اور راستے بھی ہیں، ایک کوٹلی کہوٹہ روڈ سے براستہ ہولاڑ/چھے چھن اور دوسرا براستہ سیہنسہ اور بلوچ بیٹھک سے بھی جاتا ہے لیکن وہ کافی طویل ہیں۔ اللہ اللہ کر کے پنجاڑ سے ہوتے آزاد پتن پہنچے تو آزاد پتن پل سے پہلے چند سو گز کی لینڈنگ سلائیڈنگ نظر آئی۔ گاڑیوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں لیکن شروع موسم گرما کی قدرے خشک سلائیڈنگ کی وجہ سے آر پار جانے کے لیے پیدل رستہ کھلا ہوا تھا۔ ڈرائیور حضرات ادھر کے مسافر ادھر ٹرانسفر کر کے باہمی کام چلا رہے ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ تھا کہ ہم نے پلندری سے ہو کر جانا تھا، بھائی تصدق سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا کہ براستہ چھے چھے چلے جاؤ، ان کے بہنوئی گل زرین جو چھے چھن کے رہنے والے ہیں جو ہولاڑ، چھے چھن اور آزاد پتن کے درمیان پرائیویٹ ہائر کار کا کام کرتے ہیں، ان کا نمبر لیا اور مدد کی درخواست کی، شکر اللہ کہ کہ وہ لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے وہیں مصروف تھے۔ یوں ان کو بک کر لیا کہ ہم تھوڑی دیر میں آزاد پتن پل کراس کر ان سے آن ملیں گے۔ ہم دونوں دوستوں نے اپنا اپنا بیگ اٹھایا اور سلائیڈنگ ایریا کو کراس کیا اور پھر آزاد پتن پل کو کراس کر کے آزاد کشمیر کی حدود میں داخل ہو گئے، پل کے نیچے جہلم دریا چنگھاڑتا ہوا سلامی دیتا گزر رہا تھا۔ جیسے ہی پل کراس کیا تو دائیں جائیں چھے چھن جانے والے رستے پر گل زرین کو منتظر پایا، علیک سلیک کے بعد یہ طے پایا کہ وہ آج ہمارے ساتھ ہی بک رہیں گے۔ یوں ہمارا چھے چھن پلندری، اوڑی پراٹ اور قلعہ بارل جانے کا بندوبست ہو گیا۔ چھے چھن جانے والی سڑک پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھا اور ہم پینتیس منٹ بعد چھے چھے پہنچ گئے۔ چھے چھن سے ہوئے ہوئے ہم نمب کے خوبصورت علاقے میں پہنچ جو کہ قریباً چالیس منٹ کی مسافت پر واقع ہے، اس علاقے کو اگر ٹورسٹ ریزارٹ بنایا جائے تو یہ ایک اچھا سیاحتی مقام بن سکتا ہے۔ چاروں جانب سے پہاڑوں میں گھرے نمب کو اس کے چشموں، جھرنوں اور جھیلوں کی بہات کی وجہ سے پلندری وادی کا دل کہا جا سکتا ہے۔ انواع و اقسام کے پھلدار درختوں سے لدا ہوا نمب واقع قدرت کا انمول عطیہ کہا جا سکتا ہے۔ علاقے کی خوبصورتی دیکھ کر آصف کہنے لگا؛ جانتے ہو میں تمہارے ساتھ کیوں آتا ہوں؟ وہ اس لیے کہ مجھے یقین ہوتا ہے کہ تم مجھے کوئی نہ کوئی ایسا مقام دکھاؤ گے کو کم کم لوگوں کی نظر سے گزرا ہو گا۔ نمب واقعی ایسی ہی خوبصورت جگہ ہے کہ اسے ایک ٹاپ ٹورسٹ ریزارٹ بنایا جا سکتا ہے۔ نمب سے نکلے تو آگے پلندری بائی پاس پہ پہنچے جہاں سے ایک رستہ بائیں جانب پلندری شہر کو جاتا ہے اور دوسرا دائیں جانب اسلامپورہ سے ہوتا ہوا جاتا ہے، اسلامپورہ سے آگے یہ مزید دو شاخوں میں بٹ جاتا ہے، ایک رستہ دائیں جانب کو اوڑی پراٹ کو نیچے کی جانب چلا جاتا ہے اور دوسرا بائیں جانب بارل کی جانب چلا جاتا ہے۔ ماموں عزیز کو پہلے ہی اطلاع بھجوائی جا چکی تھی اور وہ مقرر مقام پر ہماری رہنمائی کے لیے موجود تھے۔ ان سے ملے اور بتایا کہ ماموں آپ کا گلہ دور کرنے آ گیا ہوں، آپ ہمیشہ کہتے ہیں کہ تم دن کو چکر لگا کر بھاگ جاتے ہو، اس بار آپ کا گلہ بھی دور ہو جائے گا۔ گاڑی کھڑی کر کے میں، آصف، گل زرین ماموں عزیز کے ہمراہ سڑک سے نیچے ان کے گھر کی طرف چل پڑے چیڑ کے گھنے اور قدآور درختوں کے درمیان زیگ زیگ کرتے رستے پر پندرہ منٹ میں ماموں کے گھر جا پہنچے، آصف کو سفر کی تھکاوٹ اتارنے کے لیے اس کے کمرے میں بھجوا دیا اور خود میں رشتے داروں سے ملوانے ملانے میں مصروف ہو گیا۔ ماموں کا نوجوان نواسہ احتشام ملا تو اسے بتایا کہ تمہارے ذمے ایک کام ہے کہیں جانا نہیں، تم ایسا کرنا کہ میرے دوست کو قلعہ بارل دکھا لانا، میں یہاں سب میں مصروف رہوں گا، تم اسے کمپنی دینا، احتشام نے حامی ملی لی کہ سمجھو یہ کام ہو گیا، آپ سب سے ملیں اور آصف صاحب کو قلعہ دکھا لانے کی ذمہ داری میری ہے۔ دوپہر کا کھانا تیار تھا، آصف کو اس کے کمرے سے اٹھا کر برآمدے میں کھانے کی میز پر طے شدہ پروگرام سمجھایا اور احتشام سے تعارف کروایا کہ یہ جوان آج تمہارا گائیڈ ہو گا۔ پیٹ پوجا کر کے آصف، احتشام اور گل زرین کو قلعہ گردی پر روانہ کیا اور میں ماموں عزیز کے دیگر بھائی بہنوں سے ملنے میں مصروف ہو گیا۔ میں رشتے داروں کے چند قریبی گھروں کے وزٹ پر نکل گیا، رشتے داروں سے مل ملا کر ماموں عزیز کے ہاں واپس آیا تو مغرب سے پہلے کا وقت ہوا ہو گا کہ جب آصف بھی احتشام اور گل زرین کے ہمراہ واپس آن پہنچا۔ گل زرین نے چونکہ چھے چھن جانا تھا، ان کا شکریہ ادا کر کے انہیں رخصت کیا۔ ماموں عزیز سے ان کے کچھ دوست ملنے آ گئے تو ہم دونوں دوستوں نے موقع غنیمت جانا اور قلعہ گردی کی روداد آپس میں شئیر کرنے لگے۔ بقول آصف کے ہر چند میل کے بعد کتنی تاریخی عمارتیں ہیں جو سیاحتی دلچسپی کا باعث بن سکتی ہیں لیکن کارپردازوں کی غفلت کے باعث، موسم اور قدرتی آفات کی نذر ہوتی جا رہی ہیں۔ آصف کا کہنا درست تھا لیکن ہمارے محکمے صرف کمائی کے دھندے کرتے ہیں، کام کرنا ان کے بس کی بات نہیں، میں نے برطانیہ میں رہتے ہوئے میں دیکھا ہے کہ یہاں تو کئی سو سالہ گمنام قبروں کو بھی محفوظ کیا جاتا ہے، لیکن ہمارے ہاں تو الٹی ہی گنگا بہتی ہے کاش ہمارے ہاں بھی ان قدیم عمارتوں کو محفوظ بنانے کا عمل جاری کیا جائے تو یہ قدیم عمارتیں زیادہ عرصے تک کے لیے محفوظ رکھی جا سکتی ہیں۔





No comments:

Post a Comment