Pages

Saturday 23 May 2020

میں سیلانی کیسے بنا؟ میرا سفری بلاگ آپ سب کی نذر


میں سیلانی کیسے بنا؟ میرا سفری بلاگ آپ سب کی نذر
جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا کہ میں سیلانی طبع انسان ہوں؟ میرے جاننے والے آج بھی سوچتے ہیں کہ ایک شہر میں پیدا ہونے والے بچہ سیلانی یا گاؤں کی محبت میں کیسے گرفتار ہوا؟ آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا۔ میں ابھی سکول جانے کی عمر کو نہیں پہنچا تھا کہ انہی دنوں والدہ کی طبیعت خراب ہوئی اور مجھے میرے ننھیال بھیج دیا گیا تاکہ ممانی میری دیکھ بھال کر سکیں، بلکہ سچ یہی ہے کہ نانی اماں نے آرڈر دیا تھا کہ "بیٹی(ماں جی) اپنی دیکھ بھال بمشکل کر پاتی ہے اسے گاؤں بھیج دیں"، سو سب سے چھوٹی خالہ نظیر کو میری والدہ کی دیکھ بھال کے لیے شہر بھیج دیا گیا۔ خالہ کی ابھی شادی نہیں ہوئی تھی اس لیے میں انہیں تنگ کرتا تو گھر میں ٹینشن کا سا ماحول بن جاتا، ایسے میں نانی اماں نے میری ممانی کی ڈیوٹی لگائی کہ شہر تیمارداری کے لیے جائیں تو واپسی پر مجھے بھی ساتھ ہی لیتے آئیں، اس طرح ایک دن میں ننھیال پہنچ گیا۔ نانی گھر کے کام کم ہی کیا کرتی تھیں، سوائے دودھ بلونے اور مکھن نکالنے کے وہ اور کوئی کام کم ہی کرتی تھیں، ممانی ہی گھر کی آل ان آل تھیں، ان کی شادی کو کئی سال ہو چکے تھے مگر ابھی ان کے اولاد نہیں ہوئی تھی لیکن بچوں کو سنبھالنے کا فن خوب جانتی تھیں۔ میں ممانی کے ساتھ گاؤں پہنچا، کہاں گھر میں ماں کے سوا کوئی پوچھتا تک نہیں تھا اور کہاں اب سارے سر پر اٹھائے پھرنے لگے، یوں مجھے ایسا ماحول ملا جس میں میں رچ بس گیا۔ گاؤں کا صاف ستھرا و ماحول، بہترین نگہداشت کی وجہ سے مجھے گھر یاد تک نہیں آتا تھا، بس شام ہوتے ہی ماں جی کی یاد ستاتی تھی تو ممانی وقت نکال کر صبح صبح شہر لے کر جاتیں، ماں جی سے ملواتیں اور سہ پہر کو ساتھ ہی واپس لے آتیں کیونکہ نانی اماں کا یہی آرڈر تھا۔ اللہ نے کرم کیا اور 7 ماہ میں ماں جی ٹھیک ہو گئیں لیکن اس عرصے میں، مجھ جیسا شہری بچہ اب پکا پینڈو بن چکا تھا۔ میرے ننھیال میں قدم رکھنے کی دیر تھی ادھر ممانی کے ہاں بھی خوشی نے قدم رکھ دیا، اللہ نے انہیں بھی اولاد کی خوشی دینے کے آثار پیدا کر دئیے۔
میری عمر ساڑھے چار سال سے اوپر ہو چکی تھی، بہار کے دن تھے، سکولوں میں امتحانات کے بعد نئی کلاسز شروع ہونے والی تھیں۔ ایسے میں ایک دن ابا جی، بمع والدہ اور دونوں بھائیوں کے مجھے لینے گاؤں آ گئے۔ ادھر میں تھا کہ جانے کا دل نہیں کرتا تھا، ادھر نانی خاموش تھیں کیونکہ داماد کی عزت کا خیال تھا لیکن ممانی نے سیاپا ڈال دیا کہ "میں اسے نہیں جانے دوں گی، یہ یہیں رہے گا اور گاؤں کے سکول میں پڑھے گا"۔ لیکن ابا جی نے کہا کہ "یہ لائق بچہ ہے گاؤں کے سکول میں پڑھائی اچھی نہیں ہوتی، اس لیے اس کے لیے بہتر یہی ہے کہ شہر کے سکول میں داخل ہو"۔ ممانی خاموش تو ہو گئی لیکن ضد کی کہ "آج نہیں بلکہ کل واپس بھیجوں گی اور اسے چھٹیوں میں میرے پاس بھیجنا آپ کی ذمہ داری ہو گی"۔ ماں جی نے ہنستے ہوئے کہا کہ "اب اللہ تمہیں اپنی اولاد دے دے گا، تم اس کے ساتھ چاؤ پورے کر لینا"۔ ممانی بولیں "یہ نہ آتا تو میرے نصیب کیسے جگتے، اس کے آنے سے تو اللہ نے میری گود بھری، چاہے کچھ بھی ہو جائے یہ میرے گھر کا پہلا بچہ ہی شمار ہو گا"۔ خیر سہ پہر کو ابا جی اور والدہ بڑے بھائی کے ساتھ واپس چلے گئے اور بھائی جان وہیں رہ گئے۔ رات کو ممانی روتی جاتی تھی اور کہتی جاتی تھیں کہ "اس کا سامان یہیں رہے گا، اسے کوئی نہیں لے جائے گا، جب بھی چھٹیاں ہوں گی تو یہ سیدھا گاؤں آیا کرے گا۔ رات کو ممانی نے مجھے اپنے پاس ہی سلایا اور صبح اٹھ کر میرے لیے خود ناشتہ بنایا۔ چلتے وقت دیسی گھی کا ڈبہ اور پکا ہوا ساگ ہمراہ کر دیا، ماموں، بڑے بھائی اور میں گھر سے نکل پڑے۔ نانی کا گھر ایک دو درجے اونچائی پر واقع تھا جہاں سے گاؤں کی پگڈنڈی صاف دکھائی دیتی تھی۔ ماموں نے مجھے اٹھا لیا تھا کیونکہ انہیں خطرہ تھا کہ میں کہیں بھاگ نہ جاؤں۔ میری عجیب حالت تھی کہ ماں سے ملنے کی خوشی بھی تھی اور ممانی و نانی سے بچھڑنے کا دکھ بھی تھا۔ سارا رستہ کبھی میں مڑ کر دیکھ تو کبھی ممانی آوازہ لگاتی تو میں پیچھے مڑ کر انہیں دیکھتا اور منہ بسور لیتا۔ تھوڑی دیر میں ہم ڈھلوانی رستے پر نیچے اتر گئے اور نانی کا گھر نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ نیچے برساتی نالہ تھا جہاں کبھی ممانی کے ساتھ کپڑے دھونے ان کے ساتھ آیا کرتا تھا۔ اس سے آگے چڑھائی چڑھ کر اونچی جگہ پہنچے تو ماموں نے بتایا کہ "تیری ممانی ابھی بھی صحن میں کھڑی ہمیں دیکھ رہی ہے"۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو کچھ صاف دکھائی نہ دیا،آنسو بھری آنکھوں سے کہاں صاف دکھائی دیتا ہے؟ بس سٹاپ سے گاڑی میں بیٹھ کر پہلے کہوٹہ اور وہاں سے ویگن میں بیٹھ کر راولپنڈی پہنچ گئے اور جہاں ابا جی گاڑی لے کر کھڑے تھے۔ ماموں وہاں سے اسلام آباد اپنی جاب پہ چلے گئے اور میں ابا جی اور بھائی جان کے ساتھ گھر پہنچ گیا۔ اب اپنی حالت عجیب گومگو کی سی تھی ماں جی کے ملنے کی خوشی بھی تھی اور ممانی و نانی سے بچھڑنے کی اداسی بھی، لیکن جب سکول کی کتابیں اور بستہ دکھایا گیا تو توجہ ادھر مبذول ہو گئی اور دل بہل گیا، چند دن بعد سکول میں داخل کروا دیا گیا۔ مجھے یاد ہے کہ جب بھی چھٹیاں ہوتیں تو ممانی مجھے بلوا لیتیں، گرمیوں کی چھٹیوں میں ممانی کے ہاں اللہ نے بیٹی دی، لیکن ممانی نے مجھے ہی اپنا پہلونٹھی کا بیٹا قرار دیا، میری وہ ماموں زاد جب چھوٹی تھی تو مجھ سے حسد اور نفرت سے ملا برتاؤ برتتی تھی اس کی نظر میں میں نے اس سے گھر کی بڑی اولا ہونے کا حق چھین لیا تھا۔ ذرا بڑا ہونے پہ اس نے جب بھی میرے خلاف کچھ کرنے کی ٹھانی ممانی نے اس کی خوب ٹھکائی لگائی، جس کے بعد سارے مجھ سے دبنے لگے لیکن میں ان سب سے بہت پیار بھرے طریقے سے ملتا اور بڑا بھائی ہونے کا حق ادا کرتا رہا اور ابھی بھی کرتا آ رہا ہوں۔ ممانی مجھے پوری چھٹیاں اپنے پاس رکھتیں اور اکثر اوقات آخری دن شہر بھیجتیں۔ قارئین تو یہ تھی شہری بچے کی سیلانی بننے کی شروعات یا وجوہات، امید ہے آپ کو یہ داستانِ سیلانی اچھی لگی ہو گی۔



No comments:

Post a Comment