Pages

Wednesday 27 May 2020

I راولپنڈی تا وادئ نرڑھ کا خوبصورت سفری بلاگ کا

 I راولپنڈی تا وادئ نرڑھ کا خوبصورت سفری بلاگ کا
سکول سے کالج پہنچا تو گھر والوں نے سمجھا میں اب کچھ سُدھر جاؤں گا اور گاؤں جانے کا بھوت اتر جائے گا، لیکن جو بندہ سکول کے پابند ماحول میں نہ سدھر سکا وہ کالج کے فری ماحول میں کیسے ٹھیک ہو سکتا تھا۔ شوق اپنی جگہ لیکن میں نے اپنی نصابی معمولات میں کوئی کمی نہیں آنے دی، اس کی وجہ اپنا پڑھائی کا شوق اور گورڈن کالج کا اعلیٰ تعلیمی ماحول تھا، کالج میں میرا ایک نیا دوست بنا جس کا نام کامران ستی تھا، جو نڑھ کا رہنے والا تھا۔ اس نے اپنے علاقے کی اتنی تعریف کی کہ میں پہلی چھٹیاں آنے تک اپنا ویزہ لگوا چکا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے اس بار نڑھ اور اس کا مضافاتی علاقہ دیکھے بنا نہیں رہنا۔ کامران ہاسٹل میں رہتا تھا، ایک دو بار میری دعوت پر میرے ساتھ ویک اینڈ گزارنے میرے گھر آیا تو پھر دوستی اور پکی ہو گئی۔ جس دن چھٹیاں ہونی تھیں میں نے اپنا پروگرام ماں جی کو بتایا تو انہوں نے مسکرا کر اجازت دے دی۔ میں نے کالج جاتے ہوئے صرف نوٹ بک لی اور چھوٹے سے بیگ میں دو تین جوڑے کپڑوں کے رکھ لیے کیونکہ میرا ارادہ وہاں سے کہوٹہ، مواڑا اور تھوہا خالصہ کی طرف جانے کا تھا۔ آخری دن کچھ خاص پڑھائی نہیں ہوئی اور کالج جلدی ختم ہو گیا، گرمیوں کی شروعات کے دن تھے اور دن کافی طویل تھے، جیسے ہی آخری پیریڈ ختم ہوا ہم کالج کے پاس ہی ویگن اڈے سے بیٹھ کر کہوٹہ کی طرف نکل گئے، رستے میں ہمارے ویگن والوں کی کچھ عادات بد کا پتہ چلا جس میں ایک سیٹ پر چار کی بجائے زیادہ افراد کو بٹھا کر چند روپے مزید کمانے کی لالچ سے بڑی کوفت ہوئی، جس کی وجہ سے سہالہ سے بٹھائی جانے والی چند زنانہ سواریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، میں نے اور کامران نےاپنی سیٹیں دو بزرگ خواتین کو دیں اور خود چھلانگ مار کر ویگن کی چھت پر بنے سامان کے سٹینڈ پر بیٹھ گئے۔
ویسے تو چھت پر سفر خطرناک ہے لیکن سچ پوچھیں تو سفر کا جو مزا چھت پر ہے وہ کہیں اور نہیں ملتا کیونکہ رکاوٹوں کے بغیر 360 ڈگری کا ایسا نظارہ جہاز کے سفر میں بھی میسر نہیں ہوتا، سہالہ پولیس کالج سے آگے ہردوگہر سے باغات کو سلسلہ شروع ہو گیا اور ہم باتیں کرنا بند کر کے قدرت کے نظاروں میں کھو گئے۔ آگے چل کر چکیاں کے پاس سے ایک رستہ بائیں جانب دریائے سواں کو کراس کر کے لانس نائیک محفوظ شہید نشانِ حیدر کے آبائی گاؤں پنڈ ملکاں (محفوظ آباد) کو جاتا ہے، بائیں جانب اوپر پتھریلے علاقے میں میانہ تھب کی زیارت اور گاؤں واقع ہے،زیارت میں نمک دم کر کے آشوبِ چشم کے مریضوں کو دیا جاتا ہے تاکہ ان کی آنکھیں ٹھیک ہو جائیں، اسے دیسی زبان میں 'جڑی' کہتے ہیں۔ چکیاں پہ آج کل سیکورٹی چیک پوسٹ بنی ہوئی ہے، چکیاں سے آگے میٹھی میٹھی چڑھائی شروع ہو جاتی ہے، چک کامدار پہ موڑ کاٹ کر سڑک قدرے سیدھی ہو جاتی ہے۔ چک کامدار سے آگے آڑی سیداں کا مشہور گاؤں جو اب قصبہ بن چکا ہے، وہاں سے گزرتے ہوئے ذرا آگے پنیالی اور پھر علیوٹ آ جاتا ہے جن کے درمیاں کہیں بائیں جانب اسلام آباد کا مضافاتی علاقہ نیچے سواں اور اس میں شامل ہونے والے برساتی نالوں کا سنگم بھی ہے۔ جوں جوں آبادی کم ہوتی جا رہی تھی ویسے ویسے درخت گھنے ہوتے جاتے تھے اور ان کی رنگت سبز کی بجائے سیاہی مائل سبز ہوتی جا رہی تھی۔ اب ہوا میں پہلے جیسے تپش نہیں رہی تھی بلکہ کبھی کبھار تو ہوا میں ہلکی سے ٹھنڈک سے محسوس ہوتی تھی۔ یہ ان درختوں کے ساتھ ساتھ اس علاقے میں کافی سارے چھوٹے چھوٹے کسیاں/برساتی نالے ہیں جن کی وجہ سے پانی، سبزہ، گھاس اور درختوں سے چھن کر ہوا قدرتی طور پر ائیر کنڈینشنگ ہو رہی تھی۔ علیوٹ سے آگے ترکھیاں اور پھر وائی کراس تک سڑک کے ساتھ ساتھ اتنے گھنے درخت تھے کہ کئی بار تو ویگن کی چھت پر بیٹھے سر بچانا پڑتا تھا۔ وائی کراس سے ذرا سا آگے بائیں جانب نتھوٹ اور دائیں جانب ہوتھلہ کا گاؤں آتا ہے اور سڑک کے ساتھ ساتھ کچھ دکانیں بھی تھیں جو اب اچھا خاصہ  کاروباری مرکز بن چکا ہے۔ دائیں بائیں آرمی ائیر ڈیفنس والوں کے غبارے بھی ہوا میں تیرتے  نظر آ رہے تھے، ہوتھلہ سے آگے سڑک ڈھلوان پر گھوم کر نیچے کو جا رہی ہے اور نیچے جا کر پھر بائیں کو کہوٹہ کے سب سے بڑے برساتی دریا لِنگ کے پل کو کراس کرتی کہوٹہ شہر کی حدود میں داخل  ہو رہی ہے۔ ذرا اوپر جا کر سڑک دائیں بائیں گھوم کر ہموار ہو جاتی ہے۔ قریباً ایک کلومیٹر آگے کلر چوک پہنچ کر ہم  چھت سے نیچے اتر جاتے ہیں، کیونکہ کافی مسافر اتر گئے تھے اور ہمیں اپنا سامان بھی دیکھنا تھا، بزرگ خواتین بھی اتر رہیں تھیں، انہوں نے سر پر ہاتھ پھیر کر دعائیں دی۔ ہم سیٹ پر بیٹھ گئے، ویگن چل پڑی کہوٹہ ٹاؤن ہسپتال سے مڑتی ہوئی ذرا آگے جا کر دائیں کو گھوم کر ہلکی سے چڑھائی چڑھ کر کہوٹہ کے شمالی حصے میں پہنچی جسے پنجاڑ چوک کہتے ہیں، یہی ہماری پہلی منزل تھی۔ سامان لیا اور اتر گئے، پاس ہی میرے ماموں زاد حافظ شاہد کا ریسٹورنٹ تھا، میں اور کامران سیدھے وہیں پہنچے، چنے کی دال اور تندور کی روٹیوں کے ساتھ سادہ سی چٹنی نے وہ مزا دیا جو مرغِ مسلم بھی کیا دے گا، شاہد کو بتایا کہ آج شام یا کل تمہاری طرف آؤں گا۔ ہم واپس پنجاڑ چوک پہنچے اور نڑھ جانے والی ایک پرانی ڈاج جیپ میں بیٹھے گئے، جیپ میں سواریاں کم اور سامان زیادہ لدا ہوا تھا، اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ دن کو سواریوں نڑھ کی طرف کم ہی آتی جاتی ہیں، تھوڑا بہت رش صبح اور شام کو ہوتا ہے جب کام اور سکول کالج کے بچے بچیاں آتے یا واپس گھر جاتے ہیں۔ اللہ کا نام لے کر چل پڑے، اب ہم آزاد پتن روڈ پہ تھے، اور ہمیں اندازہ ہو رہا تھا کہ آگے مری کی کسی بہن سے ہی ملاقات ہونے جا رہی ہے  کیونکہ اب دونوں اطراف چیڑھ کے درخت سر اٹھائے کھڑے دکھائی دیتے تھے، پہلی بڑی آبادی منیند کی تھی، تھوڑا آگے گئے تو دوبیرن راجگان کا گاؤں آ گیا، مندھیالہ سیداں اور بندیاہ سیداں قریب قریب جڑواں گاؤں ہیں جیسے ہی ان سے آگے نکلے تو جنگل گھنا ہونا شروع ہو گیا۔ سڑک کے بائیں جانب ذرا دور کر کے دریائے لنگ بہہ رہا تھا جس کے آس پاس کھنڈہ، کھرانگ، ہُرلہ اور سامنے پہاڑی کے دامن میں چھپڑیاں نامی گاؤں آباد تھا جو درختوں کے بیچ میں بالکل مری جیسا ہی لگ رہا تھا، تھوڑا سا آگے چلے تو پنجاڑ آ گیا، اس سے ذرا پہلے ہمیں بائیں جانب کہوٹہ نڑھ روڈ پر مڑنا تھا، چڑھائی دیکھی تو کہا واقعی ادھر مائی ڈاج جیسی سخت جان اور ہیوی انجن والی گاڑی ہی جا سکتی ہے، عام گاڑی کے بس کی بات نہیں تھی کیونکہ سڑک اتنی اچھی نہیں تھی اور چڑھائی کو دیکھنے کے لیے سر کو 90 درجے اوپر کرنا پڑتا تھا۔ پنجاڑ میں مری سے بھی زیادہ گھنے جنگلات اور ہریالی ہے، اگر اس کو اچھی طرح سے ترقی دے کر ٹورسٹ ریزارٹ بنایا جائے تو جو لوگ زیادہ چڑھائی پر نہیں جا سکتے ان کے لیے شہر سے 15 منٹ کی ڈرائیو پر ایک بہترین تفریح گاہ بن سکتی ہے، پنجاڑ پہنچ کر جنگلی جڑی بوٹیوں، چیڑھ کے درختوں کی مخصوص مہک  سے ناک کے نتھنے کھل کھل جاتے ہیں اور جب سانس کو اندر کھینچیں تو پتہ چلتا ہے کہ پھیپھڑے کافی عرصے کے بعد فل فارم میں پھول اور پچک رہے ہیں اور تازہ تر آکسیجن سے روح بھی معطر ہو رہی تھی۔ میں علاقے کے حسن میں اتنا کھویا ہوا تھا کہ رستے میں آنے والے علاقوں کے ناموں کا دھیان تک نہیں رہا، جو علاقہ مجھے زیادہ پسند آیا وہ کھوئیاں کی آبشار تھی، جسے کھوئیاں واٹر فال کے نام سے سرچ کیا جا سکتا ہے۔ کوئی 40 منٹ بعد ہم نوری آباد پہنچے، نور آباد نرڑھ سے 15 منٹ کے فاصلے پر ہے کامران کے بڑے بھائی نے نور آباد میں نیا نیا گھر بنایا تھا اور ہمارا ارادہ تھا کہ ہم وہیں رکیں گے۔ نور آباد ایک وادی نما جگہ ہے جہاں پانی کی بے شمار چھوٹی چھوٹی آبشاریں کچھ تو اتنی چھوٹی ہیں کہ جیسے ایک ایک بوند پانی ٹپکتا ہو، جن کا نام میں نے ٹپکاریں رکھ دیا۔ سارا علاقہ گھنے جنگلات سے ڈھکا ہوا تھا، بیچ بیچ میں بے شمار پڑاٹ/پتھریلے پہاڑ بھی دکھائی دے رہے تھے۔ نور آباد چھوٹا سا علاقہ ہے، جتنی دیر میں کامران گھر کی چابی لینے کسی کے ہاں گیا میں نے تمام نزدیکی علاقہ گھوم لیا۔ نور آباد کے چاروں اطراف اونچی نیچی وادیاں ہیں، جہاں سے مری کی جانب رخ کریں تو اس کے بالکل سامنے نڑھ کی دیو قامت پہاڑی سینہ تانے کھڑی دکھائی دیتی ہیں جو گول دائرے کی شکل میں نظر آتی ہیں، جس کا نچلا حصہ زیادہ گھنا، ہرا بھرا اور اوپر کی سطح قدرے میں قدرے کم جنگلات ہیں جن کے بیچ میں دیو ہیکل چٹانیں ڈھلوان کی شکل میں دکھائی دیتی ہیں۔ اتنے میں کامران بھی واپس آ گیا، اس کے ہاتھ میں دو تکیے، چادریں، تولیےاور ایک بیگ میں کچھ سامان تھا۔ کامران کے بھائی کا بالکل نیا گھر بنا تھا، اندر سوائے لوہے کی پلاسٹک کی پٹی والی چاپائیاں تھیں، ابھی رنگ و روغن جاری تھا کہ اسی اثناء میں ان کے آبائی گاؤں میں کوئی فوتگی ہو گئی اور کامران کے بھائی اور کام والے سب ادھر چلے گئے تھے۔ ہم دونوں نے بھی آج گھومنے کی بجائے ریسٹ کرنے کا سوچ لیا کیونکہ راولپنڈی سے کہوٹہ چھت پر بیٹھ کر سفر کیا تھا، کہوٹہ سے نور آباد آٹے کی بوریوں پر چادر بچھا کر آئے تھے، ٹوٹی پھوٹی سڑک اور اونچے نیچے راستوں پر سفر کے بعد بدن کی چولیں تک ہل کر رہ گئیں تھیں۔ گھر کے باتھ روم تیار اور قابل استعمال تھے، اس لحاظ سے گھومنے والے سیلانیوں کے لیے بہترین جگہ تھی، ہم نے قمیصیں اتاریں، چارپائیاں جھاڑیں، تکیے رکھے اور سو گئے۔ قارئین انشاءاللہ سفرنامے نما کا اگلہ حصہ نڑھ اور وادی سِوّڑ کی سیر دوسرے حصے میں سناؤں گا، تب تک کے لیے سفرنامہ انجوائے کیجئے۔




No comments:

Post a Comment