Pages

Tuesday 27 September 2022

مری ڈے ٹرپ اور دنبے کے گوشت کے ساتھ دھاندلی پروگرام

 مری ڈے ٹرپ اور دنبے کے گوشت کے ساتھ دھاندلی پروگرام

جاوید ماما ہمارے جگت ماما تھے، اللہ غریق رحمت کرے اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ گو وہ ہم سے عمر میں بڑے تھے لیکن وہ ہمارے ساتھ فٹبال بڑے شوق سے کھیلنے آیا کرتے تھے۔ حیدری بیوریجز کوکا کولا میں ملازمت کرتے تھے اور جب بھی کام سے جلدی آتے تو فٹبال کھیلنے گراؤنڈ میں پہنچ جایا کرتے تھے۔ بھاگ دوڑ کم کیا کرتے تھے لیکن ان کی بدنام زمانہ ٹو والی زوردار فٹبال کک بڑی مشہور تھی، خاص کر جب کوئی کھیل میں انہیں تنگ کرتا اس کے نزدیک جا کر فٹبال کو اتنے زور سے ٹو کک سے ضرب لگاتے تھے کہ اس کے ہوش ٹھکانے آ جاتے تھے۔ جب کبھی کلب یا دوستوں کے گروپ کا کوئی ٹرپ جاتا تو ماما جی ہمارے ساتھ شامل ہوتے اور ٹرپ کے دوران ککنگ کے کام میں دل جمعی سے حصہ لیتے تھے، ان کی ککنگ کا انداز آج کل کے نثار چرسی تکہ اور نثار چرسی کڑھائی سے ملتا جلتا تھا، اس کا اندازہ ہمیں اس وقت ہوا جب یہ شروع شروع میں ٹرپ پہ جاتے تو وہ شرارتاً ایک دو کر کے ٹماٹر پھینکا کرتے تھے تاکہ زیادہ سے زیادہ ٹماٹر پڑیں تاکہ کھانے میں اچھا ذائقہ آئے۔ جب کبھی ٹرپ کے لیے سودا سلف لینا ہوتا تو ان کی کوشش ہوا کرتی تھی ٹماٹر زیادہ سے زیادہ لیں۔ جب میں نے ان کا انٹرسٹ دیکھا تو ان کو مین ککنگ ٹیم میں شامل کر لیا، اس کے بعد تو وہ جب تک زندہ رہے، میرے، معشوق اور مصر کے ساتھ چیف شیف کا کام کرتے رہے۔ مری ٹرپ لے جانا ہو تو اس کے لیے باقاعدہ چھٹی لے لیا کرتے تھے۔ ہمارا کھانا پکاتے، فیکٹری سے ارزاں نرکوں پر کوک اور سپرائیٹ لا دیتے، ٹرپ پہ روٹیاں لینے جانا ہو تو وہ سب سے آگے ہوتے تھے۔ جن دنوں کی میں بات چھیڑنے جا رہا ہوں ان دنوں پریکٹس معطل تھی کیونکہ ہم سب جشن عید میلادالنبیﷺ کے جلوس کے سلسلے میں انجمن نوجوانانِ اللہ آباد کے بینر تلے انتظامات مصروف تھے، جیسے ہی فارغ ہوئے تو ماما کہنے لگے؛ یار گھر کا پکا کھا کھا کر منہ کا ڈیزائن بھی گھر کے دیگچے جیسا ہو گیا ہے، مڑا کوئی ٹرپ پلان کرو۔ سب دوست احباب سے بات کی تو بیٹھے بٹھائے پروگرام بن گیا کہ چلو چلو مری چلو۔

ان دنوں ابھی مری ایکسپریس وے نہیں بنا تھا، ہمارا پلان مری گلیات سے لے کر کلڈنہ کے درمیان کہیں جنگل میں منگل منانے کا بنا۔ ماما جاوید کو خبر دی تو کہنے لگے، مڑا اس بار دنبے کا نمکین گوشت بنائیں گے، میں ٹیکسلا سے دنبے کا گوشت لے آؤں گا، تم باقی سودا ادھر سے لے لینا۔ گوشت کے لیے رقم دی تو لے نہیں رہے تھے، میں نے کہا ماما جی آپ مزدور آدمی ہو، دیہاڑی لگتی ہے تو کھانا پکتا ہے، ایسا نہیں کریں رقم جیب میں ڈالیں، قدرے ناراضگی سے ہی سہی لیکن بالآخر مان ہی گئے۔ ویسے بھی ان دنوں ہم سبھی امریکن سسٹم پہ چلا کرتے تھے، عموماً دو چار مالدار دوست ہی زیادہ حصہ ڈالتے تھے، یعنی کوئی نمک کوئی آٹا کے حساب سے حصہ دار بن ہی جاتا تھا۔ جمعہ کی صبح سبھی تیار ہو کر مصر خان کی سوزوکی میں لد گئے، آج سوچتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ پندرہ سولہ جوان، ایک دیگچہ، جلانے کی لکڑیاں اور سودا سلف کیسے سوزوکی جیسی سیمپل ڈیلیوری وین میں سما جاتے تھے، لیکن ہم ایسا کر ہی لیتے تھے۔ ہمارا دوست شاہد بٹ تو چھت کے جنگلے کے ساتھ چادر جھولا بنا کر اپنے جیسے ایک دو اس میں گھسا لیتا تھا۔ آئی جے پی روڈ، فیض آباد، راول لیک روڈ اور کشمیر ہائی وے سے ہوتے بھارہ کہو جا نکلے، سترہ میل سے چھتر پارک کو نظروں سے سلام کرتے آگے بڑھ گئے۔ ان دنوں اسلام آباد کی اتنی زیادہ آبادی نہیں ہوا کرتی تھی۔ سترہ میل سے آگے چھوٹے چھوٹے ٹیلے دکھائی دئیے جو اس بات کا اعلان تھے کہ ہمالیہ کا سلسلۂ کوہ شروع ہو گیا ہے، جیسے ہی پہاڑی علاقہ شروع ہوا سب جوش سے بھر گئے، اب پولیس کی جانب سے روکے جانے کا خطرہ نہیں رہا تھا، اس لیے میرے جیسے چند اور دوست بھی سوزوکی کی چھت پر جا کر بیٹھ گئے۔ بائیں جانب خیبر پختونخوا (تب اسے سرحد ہی کہا جاتا تھا) کے پہاڑ سر اٹھائے کھڑے تھے، سرحد سے بہتا کورنگ نالہ پنجاب میں داخل ہو رہا تھا۔ 22 میل کے نام سے چھوٹی سی آبادی آ گئی جو یقیناً اس وقت کے 22 ویں میل کے پتھر سے ہی مشہور ہوئی ہو گی۔ بائیس میل اور سترہ میل دونوں سڑکی کزن ہی نظر آتے ہیں ورنہ کوئی ایسے نام کیسے رکھ سکتا ہے۔ آگے انگوری نامی جگہ آئی، مجھے یقین ہے انگور تو یہاں نہیں ہوں گے، ویسے ہی کسی نے یہ پخ لگا دی ہو گی۔ سامنے سالگراں کی آبادی بھی ہمیں اپنی طرف متوجہ کر رہی تھی، لیکن ہم جیسے بندروں کے کولونیل کزنز کو مری ہی پسند آیا تھا، اس لیے اسے نظر انداز کر دیا۔ اب ہمالیہ سر اٹھانے لگا تھا، پہاڑ اونچے اور درخت بھی قدآور ہونا شروع ہو گئے تھے۔ تریٹ سیداں پہنچے تو شہر کی گرمی رخصت ہو گئی اور ہوا ہم چھت پہ بیٹھے بندروانوں کے منہ پر ٹھنڈے ٹھار تھپڑ رسید کر رہی تھی لیکن ہم ہی کیا جو نیچے اترنے پر آمادہ ہو جائیں۔ آگے چل کر تکیہ مکرم شاہ آیا، جو کسی بزرگ کے نام پر آباد چھوٹا سا پہاڑی گاؤں ہے۔ بانکوٹ سے آگے چل کر چھرہ پہنچے اور وہاں سوزوکی روک کر اپنے لیے بوتلوں میں پانی بھر کر سیٹوں کے نیچے گھسیڑ دیا کیونکہ اور کہیں رکھنے کو جا ہی نہیں تھی۔ چھرہ پانی سے دائیں جانب ساملی سینی ٹوریم کا طبی مرکز ہے جہاں ٹی بی کے مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے، میری ایک پھوپھی زاد بھی یہاں زیر علاج رہی ہے۔ کمپنی باغ پہنچے تو شہری آبادی کے آثار دیکھ کر سبھی پرجوش ہو گئے، پرجوش نعرے اس بات کا اعلان تھا کہ اب مری کے مضافاتی علاقے کی آبادی کا آغاز ہو گیا ہے۔ گھوڑا گلی کے بارے میرے والد صاحب کہا کرتے تھے کہ یہاں کسی گورے صاحب کا گھوڑا مر گیا تھا، جس کے نام سے یہ جگہ مشہور کر دی گئی، کر سکتے ہیں جی کر سکتے ہیں، گوروں کی اس وقت آدھی دنیا پر حکومت رہی تھی۔ گھوڑا گلی کافی بڑی آبادی ہے، یہاں مری بروری والوں کی فیکٹری بھی ہے، میرے ایک خالو بھی یہیں کچھ عرصہ کام کرتے رہے ہیں۔ بانسرہ گلی پہنچے تو دائیں مڑ کر دیکھا جہاں سامنے مری شہر کے ایک سرے پر پنڈی پوائنٹ کے نام سے مشہور ویو پوائنٹ نظر آیا، جہاں سے میں نے ایک بار برفباری کے موسم میں اچانک سلپ ہو کر کئی سو گز کا فاصلہ پلک جھپکنے میں طے کرنے کا عالمی ریکارڈ بنایا تھا۔ جلیے مت جناب آپ بھی کسی برفباری کے موسم میں اپنا ذاتی ریکارڈ بنا سکتے ہیں بس شرط یہ ہے کہ آپ کو مری آنا پڑے گا۔ سنی بنک چوک پہنچے تو وہاں کے بدنام زمانہ رش نے ہمارا استقبال کیا، بیس منٹ کی کھجل خواری کے بعد کیڈٹ کالج سے ذرا پہلے جہاں گاڑی پارک کرنے کی جگہ بنی ہوئی تھی، مادام سوزوکی کو کھڑا کیا تاکہ محترمہ کچھ دیر سستا لیں۔ یہاں سے اوپر دو پہاڑیوں کے بیچ وادی نما جگہ پر ہم نے ڈیرہ لگا لیا، کپتان فیاض کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ علی رضا کے ساتھ جا کر مقامی پولیس سٹیشن والوں کو مطلع کر دیں کہ ہم جوان کھانا پکائیں گے اس لیے آگ لگانے کی اجازت دی جائے یا فری میں کھانا دیا جائے۔ علی رضا کے والد ان دنوں پنڈی میں ڈی ایس پی پولیس تعینات تھے۔ کپتان نے واپس آ کر بتایا کہ بیگ صاحب کا حوالہ کام آ گیا ہے اور ہمیں کنٹرولڈ فائر کی اجازت مل گئی ہے۔ جبکہ یہ کام اجازت نامہ پہنچنے سے پہلے ہی کیا جا چکا تھا، کیونکہ ہمیں پتہ تھا کہ پاکستان میں وردی والوں کا کتنا رعب ہے، سمجھا کریں ناں، ہم بھی گھر کے بھیدی جو ہوئے۔ میں نے اور ماما جاوید نے ایک کچی جگہ کو کھود کر انڈر گراؤنڈ چولہا بنا کر آگ جلا دی تھی۔ ماما جی نے آگ جلتے ہی دیگچہ آگ پر دھرا سفیدی مائل گلابی دنبے کے کٹے ہوئے گوشت کو دیگچے میں ڈالا، پندرہ منٹ تک بغیر گھی کے اسے بھونا، جب گوشت نے پانی چھوڑنا شروع کیا تو پھر نمک اور ٹماٹر ایک ساتھ ڈال کر ڈھکن لگا کر چھوڑ دیا۔ باقی ٹولیاں کوئی بیٹھی تاش کھیل رہی ہے، کوئی گانے گا رہی ہے، کوئی دیسی ہاتھ کشتی لڑ رہی ہے گویا کہ شہری بندروان اپنے قدرتی ماحول میں آتے پورے بندر بن چکے تھے۔ اتنے میں ایک پولیس کا سپاہی خانہ پری نما ڈیوٹی پوری کرنے آن پہنچا، آگ کا وقوعہ دیکھا اور پاس کر کے چلتا بنا، جب وہ نیچے سڑک پر پہنچا تو سب نے نعرہ لگایا بیگ صاحب زندہ باد، پلسیا اپنے آپ کو بیگ صاحب سمجھ کو چوڑا ہو کر واپس پولیس سٹیشن کی طرف نکل پڑا۔ ابی گوشت گلا نہیں تھا تو میں نے ماما کو مشورہ دیا کہ نفر زیادہ ہیں، سوکھا نمکین گوشت روٹی سے کیسے کھائیں گے؟ صرف ٹماٹر نہیں اس میں دو اڑھائی کلو پیاز بھی ڈال دیں تاکہ روٹی کھانے کے لیے کچھ گریوی بن جائے۔ ماما جی نے نمکین گوشت کا چسکا پورا کرنے کے لیے اپنا مال پلیٹ میں ڈال کر ایک طرف چھپا دیا۔ پھر گھی اور پیاز ڈال کر ہماری منشاء کے مطابق بھنوائی شروع کر دی تاکہ سالن تیار ہو جائے۔ جب بھنائی ہو گئی تو جیسے ہی ماما جی سگریٹ کا کش لگانے کے لیے اٹھے ہم نے دو کلو دہی بھی بیچ میں انڈیل دیا تاکہ نمکین گوشت، قورمہ مکس پلیٹ تیار ہو جائے۔ ماما واپس آئے، ڈھکنا اٹھایا دنبہ مکس کے سالن کا حال دیکھا تو بولے مڑا یہ تو دھاندلی ہوئی ہے، میں نے اب ہم جیت چکے ہیں، چاہے دھاندلی سے جیتے یا دھاندلے سے، لیکن جیت ہی گئے ہیں۔ جب گوشت تیار ہو گیا تو، ہم کلڈنہ سے روٹیاں لے آئے۔ سبھی پرات نما سٹیل کے برتنوں میں سالن ڈال کر جہاں جگہ ملی وہاں بیٹھ کر کھانے لگے، ماما جی سوکھے، بھنے نمکین کے ساتھ روٹی نہ کھا سکے تو سوکھا گوشت ہی کھانے لگے۔ میں نے آفر کی کہ ماما جی یہاں ہماری پلیٹ کے مہمان بن جائیں۔ جب ماما جی نے ہماری مکس پلیٹ ڈش کو چکھا تو کہنے لگے مڑا یہ تو نمکین سے بھی زیادہ مزے دار ہے۔ کھانے فارغ ہوئے تو سبھی کی ووٹنگ یہی تھی کہ نمکین گوشت صرف گوشت کھانے کے مقابلے کا ونر ہے، جبکہ ساتھ میں روٹی نان ہو تو پھر مکس پلیٹ قورمہ چیمپین ہے۔ کھانا کھا کر لڑکے بالے سامان باندھنے لگے کیونکہ مری کے موسم کے آثار بتا رہے تھے کہ بھاگو شہریو! پہاڑی علاقے میں بارش شروع ہونے والی ہے۔ جب ہم سامان سمیٹ کر میڈیم سوزوکی میں بیٹھ چکے تو بارش کا پہلا چھاٹا پڑا، جلدی جلدی، سوزوکی کا پچھلا ترپال نیچے کیا اور مصر خان نے اللہ کا نام لے کر سنی بنک کی طرف سوزوکی موڑ دی۔ بارش کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ سنی بنک چوک خالی ملا، بارش نے بھارہ کہو تک باری نہیں آنے دی، اس لیے واپسی کی رننگ کمنٹری بارش کی نذر ہو گئی۔ بھارہ کہو سے جب راول لیک روڈ پہ مڑے تو بارش رک گئی، جب سورج نکلا تو ترپال ہٹا لیا گیا، جو جو پیچھے والے حصے میں بیٹھے تھے، کچھ کچھ بھیگ گئے تھے اس لیے وہ سبھی سوزوکی کے پائیدان پر لٹک کر گیلے لباس سکھانے لگے۔ فیض آباد سے نکلے تو پیرودھائی اڈے کے جنکشن تک پہنچتے پہنچتے سب کے لباس سوکھ گئے، اسلام آباد ریلوے کیرج فیکٹری کے سامنے سے رینج روڈ پہ مڑتے ہوئے پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت سیدھے رینج نمبر دو کے فٹبال گراؤنڈ میں جا کر بریک ماری۔ ماما جاوید کی قیادت میں دو تین نفر معشوق کے ہوٹل پر سامان رکھنے چلے گئے، انہوں نے واپسی پر فٹبال کٹس لیتے آنا تھا، جسے پہن کر ہم سب نے کھیلنا تھا۔ جتنی دیر میں ریڈی میڈ فٹبال پولز لگائے کٹیں آ گئیں اور ہم سب نے پہن کر پریکٹس گیم کا آغاز کر دیا۔ فٹبال کا پریکٹس میچ کھیل کر پسینہ سکھانے بیٹھے تو معلوم ہوا کہ دنبہ تو کبھی کا نمک سمیت کا ہضم ہو چکا ہے، اب ماؤں کے ہاتھ کے کھانے کا وقت ہو چلا تھا۔



No comments:

Post a Comment